پاکستان سے طالبان کی درخواست
ایسی حالت میں کہ حکومت پاکستان نے افغان حکام سے طالبان کی قید میں ہیلی کاپٹر میں سوار اپنے ملک کے سات شہریوں کو رہا کرانے کی کوشش کی درخواست کی ہے، طالبان نے حکومت اسلام آباد سے درخواست کی ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لئے کوئی اقدام نہ کرے۔
پاکستانی طالبان حکیم اللہ محسود گروہ کے ترجمان قاری سیف اللہ نے پاکستانی ذرائع ابلاغ سے رابطہ برقرار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ ان یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے اگر کوئی معمولی سا بھی اقدام عمل میں لایا گیا تو تمام یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا جائے گا جبکہ یہ تمام افراد اس وقت بخیریت، اور طالبان کے قبضے میں ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے افغانستان میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کے اغوا کئے جانے والے تمام افراد کو رہا کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے افغانستان کے صوبے لوگر کے ارزہ علاقے میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد کہا کہ اسلام آباد کی حکومت، اس ہیلی کاپٹر کے اغوا کئے جانے والے تمام افراد کو رہا کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے ان سے ان یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر، تعمیر کے مقصد سے ازبکستان کے راستے روس جا رہا تھا جسے افغانستان کے صوبے لوگر میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی اور طالبان نے اس ہیلی کاپٹر میں سوار سات افراد کو، کہ جن میں ایک روسی بھی شامل ہے، اغوا کرلیا۔ایسی حالت میں کہ پاکستان کے سیاسی و فوجی حکام، یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں پاکستان کے ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ، ایک معمول کی بات ہے تاہم افغان پارلیمنٹ کے بعض اراکین، کچھ اور خیال ظاہر کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کے اس ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کو طالبان کی فوجی مدد اور افغان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے اسلام آباد حکومت کی ایک قسم کی نئی چال قرار دے رہے ہیں۔افغانستان کے سینیٹر صاحب خان نے اس ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کو تیکنیکی خرابی کا نتیجہ قرار دیئے جانے کو مسترد کرتے ہوئے اس طرح کے دعوے کو رائے عامہ کو فریب دینا قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس واقعے کو پاکستان کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اچانک پیش آنے والے اس واقعے کے مقام پر طالبان کا فوری طور پر پہنچنا ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جنھوں نے اس ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کو اغوا کر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس ہیلی کاپٹر میں ڈیڑھ سو فوجی وردیاں اور ڈیڑھ لاکھ ڈالر موجود تھے جو طالبان کو فراہم کئے گئے۔افغان پارلیمنٹ کے اراکین، اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے کہ ان کے ملک کے فضائی حدود پر امریکہ کا کنٹرول ہے، یہ باور کرتے ہیں کہ یقینی طور پر پاکستان کا یہ ہیلی کاپٹر، امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ہی افغانستان کے حدود میں داخل ہوا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان کی قومی اسمبلی کے اس رکن نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے تین افسر بھی اس ہیلی کاپٹر میں موجود تھے اور افغان اراکین پارلیمنٹ کے نقطہ نظر سے یہ، افغانستان کے فوجی و سیکورٹی امور میں پاکستان کی ایک قسم کی کھلی مداخلت ہے۔ دریں اثنا افغانستان کے ایک اور رکن قومی اسمبلی حاجی عبیداللہ بارکزئی نے ہماری پشتو سروس سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اس ہیلی کاپٹر نے افغانستان میں اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے ہنگامی لینڈنگ کی تھی اور درحقیقت طالبان، ان کی مدد کے لئے آگے بڑھے تھے اور اسی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کو منتقل کئے جانے کے بعد اسے دھماکے سے اڑا یا گیا ہے۔افغانستان میں بعض سیاسی و فوجی حلقے، یہ باور کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو جب بھی افغانستان میں کوئی سیاسی و فوجی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ کچھ اس طرح سے کوشش کرتی ہے کہ اسلام آباد کے مطالبات منوانے کے لئے کابل کی حکومت پر دباؤ بڑھے۔ ان حلقوں نے پاکستان کی جانب سے سرحدی گذرگاہ کے قیام اور طورخم کی سرحد پر مواصلاتی اور ریڈار سسٹم نصب کئے جانے کو بھی، کہ جس پر حکومت کابل کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا گیا ہے، اسی سے مربوط قرار دیا ہے اور ایسی صورت میں کہ افغانستان کے امن کے عمل میں طالبان کو شمولیت پر مجبور کرنے کے لئے پاکستان کی حکومت پر افغانستان کی حکومت اور علاقائی و بین الاقوامی حلقوں کا اس وقت شدید دباؤ ہے، وہ مظلوم بن کر اور یہ ظاہر کر کے کہ طالبان، پاکستان کے فوجیوں کو بھی اغوا کر رہے ہیں، خود پر پڑنے والا دباؤ، کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔