Oct ۱۰, ۲۰۱۶ ۱۶:۰۶ Asia/Tehran
  • افغانستان اور پاکستان میں محرم میں حفاظتی انتظامات

پاکستان میں نویں اور دسویں محرم کو تکفیری دہشتگردی کے امکانات بڑھنے کے پیش نظر پاکستانی فوج پاراچنار اور ہنگو میں داخل ہوگئی ہے

دوسری تفسیر

پاکستان میں نویں اور دسویں محرم کو تکفیری دہشتگردی کے امکانات بڑھنے کے پیش نظر پاکستانی فوج پاراچنار اور ہنگو میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ دو علاقے قبائیلی علاقے ہیں اور صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع ہیں۔ پاکستان کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ ایام عزاداری میں ہرطرح کے دہشتگردانہ حملوں کوروکنے کے لئے پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد عاشورا کے خاتمے تک بند رہنی چاہیے۔پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں پاراچنار ہی واحد شیعہ علاقہ ہے۔اس علاقے میں ہر سال محرم کے وقت تکفیری دہشتگرد گروہ عزاداراں امام مظلوم پر وحشیانہ حملے کرتے ہیں جن میں دسیوں عزادار شہید ہوتے ہیں۔پاکستان کی حکومت نے اپنی حفاظتی تدابیر میں نویں اور دسویں محرم کو کراچی اور کوئٹہ میں مواصلات کی خدمات بند کرنا بھی شامل کر رکھا ہے تا کہ دہشتگردوں کے درمیان مواصلاتی رابطوں کو منقطع کیا جاسکے۔

پاکستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ عزاداروں کو تحفظ فراہم کیا جائے البتہ یہی مطالبہ افغان عوام بھی اپنی حکومت سے کررہے ہیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنا اور ماتمی دستے نکالنا محض شیعہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اھل سنت بھی اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے خاص عقیدت رکھتے ہیں اور نہ صرف شیعہ مسلمانوں کی مجالس عزا میں شرکت کرتے ہیں بلکہ خود بھی مجلسیں کراتے ہیں۔ اس کے یہ معنی  ہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت  اور شیعہ سنی کے درمیان ایک دوسرے سے منافرت پھیلانے کا مسئلہ تکفیری وہابیوں کی طرف سے آیا ہے اور وہ تشدد  پھیلا کر پاکستان کو داخلی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں اسی وجہ سے فرقہ وارانہ اختلافات پر یقین رکھنے والے گروہ جیسے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں بالخصوص محرم کے دنوں میں ملوث ہیں، وہابی گروہ ان لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کےعلاوہ پاکستان میں ان گروہوں سے سب لوگ واقف ہیں۔ادھر مشرقی افغانستان میں لشکر جھنگوی کے ایک دہشتگرد کے  ہلاک ہونے کےبعد معلوم ہوتا ہے کہ اس دہشتگرد گروہ نے اپنا دائرہ عمل افغانستان تک بڑھا دیا ہے۔ دو سال پہلے لشکر جھنگوی نے کابل میں عزاداروں کے ایک جلوس پر حملہ کرکے دسیوں افراد کو شہید اور زخمی کردیا تھا۔

اسی بنا پر ہرچند سرحدیں بند کرنے سے دہشتگردوں کو آنے جانے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن پاکستان میں سکیورٹی تدابیر اپنا کر موثر اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔پاکستان کی فوج کوسختی سے اور بغیر کسی تحفظات کے دہشتگردوں اور فرقہ وارانہ گروہوں  سے نمٹنا چاہیے کیونکہ افغانستان میں  عزاداران امام مظلوم پر حملے نہیں ہوتے تھے اور اگر ہوئے بھی ہیں تو حملہ آور پاکستان سے آئے تھے لہذا پاکستان کی فوج اور سکیوریٹی فورسز کے کندھوں پر عزاداران حسینی کی سکیورٹی یقینی بنانے اور افغانستان میں دہشتگردوں کی دراندازی روکنے کی سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج عزاداران حسینی کی سکیورٹی فراہم کرنے کے بہانے اس قبائلی علاقے میں فوج بھی تعینات کرنا چاہتی ہے، اس علاقے کے لوگوں نے فوج بھیجے جانے کی مخالفت کی ہے۔ پاکستانی فوج کو مکمل ساز و سامان کے ساتھ منجملہ بکتر بند گاڑیوں اورجنگی ٹینکوں کےساتھ روانہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ فوج ہنگو اور پاراچنار میں عاشورا کے بعد بھی رہنے والی ہے۔بہرحال پاکستان میں شیعہ علماء اور مذہبی رہبروں نے حکام سے مطالبہ  کیا ہے کہ دہشتگردوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے لئے موت کی سزا معین کی جائے تا کہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد انہیں کسی طرح کا تحفظ نہ حاصل ہو۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ دہشتگردوں کی گرفتاری کے بعد ان کا کیس اس قدر طولانی ہوجاتا ہے کہ ان کو جیل سے بھاگنے یا بری ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔