سعودی عرب میں موت کی سزائیں
سعودی عرب میں ایک عدالت نے تین افراد کو حکومت کے خلاف مسلحانہ کارروائیاں کرنے کے الزام میں موت کی سزا دی ہے۔
سعودی عرب میں ایک عدالت نے تین افراد کو حکومت کے خلاف مسلحانہ کارروائیاں کرنے کے الزام میں موت کی سزا دی ہے۔ ان تینون ملزمان کا تعلق قطیف سے ہے۔ سعودی عرب میں سیاسی، شہری اور قانونی سطح پر سرگرمیاں انجام دینے والوں پر جو کہ پرامن سرگرمیاں انجام دیتے ہیں مسلحانہ جدوجہد کا الزام لگاجاتا ہے۔ یاد رہے سعودی عرب میں سرگرم رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان کی پرامن جدوجہد جاری رہے گی۔ سعودی عرب کی حکومت مخالفین میں رعب و وحشت پیدا کرنے کے لئے ان کو موت کی سزائیں سناتی ہے۔سعودی عرب میں رواں برس میں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔سعودی عرب نےدو جنوری دوہزار سولہ کو سب سے زیادہ ملزمان کو اجتماعی طور پر سزائے موت دی ہے۔ ان افراد کو جنہیں سزائے موت دی گئی تھی سعودی عرب کے بزرگ اور مجاہد عالم دین آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر بھی شامل ہیں۔ انہیں چھیالیس افراد کے ہمراہ سزائے موت دی گئی تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آیت اللہ شیخ باقر النمر کوآل سعود کی حکومت پر تنقید کرنے اور عوام کے مطالبات پر تاکید کرنے کی بناپر قید کرکے ظالمانہ طریقے سے اور بے بنیاد الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی جبکہ کسی بھی ملک کے قانون میں یہ نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کو عوام کے شہری اور سیاسی حقوق پر تاکید کرنے کی وجہ سے موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آل سعود کی عدالتوں میں بے بنیاد اور غیر منطقی فیصلوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کی عدالت بھی داعش تکفیری گروہ ہی طرح ہی ہے اور ایسی حکومت کا خاصہ ہےکہ اس کے ہر حکم سے تشدد اور قساوت ٹپکتی ہے۔قانونی حلقوں کا کہنا ہےکہ سعودی عرب کی عدالت نے شرعی اور قانونی اصولوں کو اپنانے کے بجائے عوام کے خلاف ظالمانہ ترین احکام اپنائے ہیں اسی وجہ سے اس کے لئے موت کی سزا دینا سب سے آسان اور رائج کام بن گیا ہے اور سعودی عرب کی عدالتیں ہر لمحے موت کی سزا کا حکم جاری کررہی ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت کی کارکردگی جمہوریت کے اصولوں جیسے انتخابات،سیاسی پارٹیوں، میڈیا اور اخبار وجرائد کی آزادی کے فقدان کا نتیجہ ہے، اسی وجہ سے سعودی عرب انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز بن گیا ہے، سعودی عرب کی حکومت کے اقدامات صرف اس کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہے ہیں بلکہ آل سعود کے بنائے ہوئے تکفیری دہشتگرد گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ نیز ان کے پٹھو گروہ جو انحرافی اور پسماندہ ہیں ان سے اھل عالم پریشان ہیں۔ ایسے حالات کے پیش نظر سعودی عرب جو انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز بن چکا ہے اسے اپنے مغربی حامیوں کی مدد سے جن میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش ہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ماہرین کے کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔سعودی عرب کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوبارہ رکنیت دینا اور نہات ہی اہم پوزیشن دینا یہ ظاہر کرتا ہےکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سیاسی بنیادوں پر کام ہوتا ہے اور اقوام متحدہ کے اس ذیلی قانونی ادارے میں انسانی حقوق اور اس کے معیار کو بری طرح تحریف کردیا گیا ہے۔بین الاقوامی اداروں کی اس طرح کی ضعیف کارکردگی سے انسانی اور عالمی حقوق کو پامال کرنے کےلئے لئے سعودی حکام کے مزید گستاخ ہونے کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور سعودی عرب میں موت کی سزاؤں میں اضافہ ہونا عالمی برادری کا آل سعود کے ہمراہ ہونے کا نتیجہ ہے۔