ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ جاپان
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف، مشرقی ایشیا کے مختلف ملکوں کے اپنے دورے کے تیسرے مرحلے میں منگل کی رات جاپان کے دورے پر ٹوکیو پہنچے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس سے قبل ہندوستان اور چین کا دورہ کیا۔ ٹوکیو ایئرپورٹ پہنچنے پر نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے محمد جواد ظریف نے کہا کہ ہندوستان اور چین کی مانند دورہ جاپان میں بھی مذاکرات کا محور دو طرفہ اقتصادی و سیاسی تعلقات کو فروغ دینے کے بارے میں گفتگو کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ جاپان میں بھی ایران کا ایک اقتصادی وفد، ان کی ہمراہی کر رہا ہے۔
محمد جواد ظریف نے جترو سے موسوم جاپان کی بیرونی تجارت کی تنظیم کے سربراہ ایشیگہ سے ملاقات میں جاپانی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لئے ایران میں پائے جانے والے امن و استحکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران، جاپان کے ساتھ اقتصادی توسیع کا خواہاں ہے۔
اس ملاقات میں جاپان کی بیرونی تجارت کی تنظیم کے سربراہ ایشیگہ نے بھی کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران میں جاپان کی کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی مناسب راہ ہموار ہوئی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ کے دو روزہ دورۂ ٹوکیو میں اقتصادی تعلقات کے علاوہ سیاسی تعلقات اور علاقائی و بین الاقوامی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں مشرق پر توجہ، خاص اہمیت کی حامل ہے اور مقابل فریق میں پائے جانے والے رجحان کے مطابق مختلف ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات خاصے فروغ پائے ہیں جس کا ایک نمونہ ایران اور چین کے تعلقات ہیں۔ ظاہر ہے کہ جاپان بھی ایران کے ساتھ تعلقات کی توسیع کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور ٹوکیو سمجھتا ہے کہ ایران اور جاپان، اپنی توانائیوں اور گنجائشوں کے پیش نظر دو طرفہ تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکتے ہیں۔ البتہ یورپ و ایشیا کے مختلف ملکوں کے مقابلے میں ایران کی منڈی میں جاپان کی موجودگی مذکورہ گنجائشوں اور توانائی کے مطابق نہیں ہے۔
ایران اور جاپان کے تعلقات، ماضی میں معمول کے مطابق رہے ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران ایران کے خلاف غیر منصفانہ امریکی پابندیوں میں جاپان کی جانب سے امریکہ کی پیروی کی بناء پر ان تعلقات میں کچھ فاصلہ پیدا ہوا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور جاپان کے وزیر اعظم شینزو آبے کے درمیان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں ایران کے صدر نے کہا کہ تہران، آئندہ دس برسوں کے دوران اقتصادی تعلقات کا روڈمیپ تیار کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے ایران کے وزیر اقتصاد طیب نیا کے دورہ ٹوکیو میں طے پانے والے سمجھوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بینکنگ کے امور سے متعلق سمجھوتے پر عمل درآمد میں تیزی لانے کے لئے مشترکہ کوششوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ اقتصادی تعلقات سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جاپان کے بینک مکمل طور پر سرگرم عمل ہوں۔ اس ملاقات میں جاپان کے وزیر اعظم نے بھی تہران اور ٹوکیو کے درمیان تعاون کی سطح کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک، اقتصادی تعلقات کی توسیع کے خواہاں ہیں جبکہ ماحولیات، سیکورٹی اور پرامن جوہری توانائی کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری ہے۔
واضح رہے کہ آخری بار انّیس سو اٹھتّر میں جاپان کے اس وقت کے وزیر اعظم تاکؤ فوکودا نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اور جاپان کے درمیان دونوں ملکوں کے حکام کے باہمی دوروں اور ملاقاتوں میں اضافہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے ایسے میں کہ جاپان کے وزیر اعظم سے قبل چین اور جنوبی کوریا کے صدور ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔ کچھ دنوں قبل جاپان کے اخبار نیکی نے بھی لکھا تھا کہ جاپان کے حکام اور سفارتکار ماضی سے کہیں زیادہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ جاپان کے وزیر اعظم شینزو آبے ایران کا دورہ کریں اور وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہ دیں کہ جاپان، ایران میں یورپ و ایشیا کے ملکوں سے پیچھے رہ جائے۔
جائزے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جاپان میں تجارت اور گاڑیوں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکین خود کو جاپان کے وزیر اعظم کے دورہ تہران میں ہمراہی کرنے کے لئے آمادہ کر رہے ہیں۔ مسلمہ امر یہ ہے کہ ایران اور جاپان، ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل کے بارے میں بھی مذاکرات کر سکتے ہیں جو مختلف ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور قریبی بنانے میں موثر واقع ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر ایشیا کے دو اہم ملکوں کی حیثیت سے ایران اور جاپان، اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ ٹوکیو سے ایران اور جاپان کے تعلقات کی توسیع کے دائرے میں اقتصادی و سیاسی مذاکرات کا بہترین موقع میسر ہوا ہے۔