انڈونیشیا میں انتہا پسندی پر تشویش
مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والے ملک انڈونیشیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے جس نے عالمی رائے عامہ اور عالم اسلام کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اس ملک کو ان مسائل سے نجات دلانے کے لئے غور و فکر کریں۔
انڈونیشیا کے صدر جوکوویدودو کے قریبی عہدیدار لوہات بنسار پان جائے تن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جکارتا انتہا پسندی سے مقابلے کے لئے پر عزم ہے۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں کہا ہے کہ قومی اتحاد اور سماجی عدل و انصاف کا نفاذ انڈونیشیا کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے وجود سے پاک کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ انڈونیشیا کی اہم حکومتی شخصیت کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ اس ملک کے سینکڑوں انتہا پسند عراق، شام، ملائشیا اور خود انڈونیشیا میں داعش دہشت گرد گروہ کے ساتھ مل کر حکومت اور عوام کے خلاف جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دین اور اسلام کے نام پر علاقے اور آسیان کے علاقے میں دہشت گردی کے فروغ نے اس ملک کے حکام کی تشویشوں میں اضافہ کردیا ہے۔ شام میں حلب کی فتح کے بعد اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ انڈونیشیا سے جا کر شام میں داعش سے مل جانے والے دہشت گرد اب اپنے ملک کو واپس آنا شروع ہوجائیں گے اور ان کا اگلا ہدف جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ ہوسکتا ہے۔
انڈونیشیا کے صدر نے اپنے تہران کے حالیہ دورے میں رہبر انقلاب اسلامی اور صدر ایران سے ملاقات میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مقابلے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ انڈونیشیا کے صدر نے اپنے حالیہ دورہ ہندوستان میں بھی ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات میں دہشت گردی سے مقابلے پر تاکید کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اسلامی ممالک کی باہمی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔
انڈونیشیا کے حکام اس لئے بھی دہشت گردی سے تشویش کا شکار ہیں کہ جنوری 2016 میں دہشت گردوں نے انڈونیشیا میں ایک دہشت گردانہ کارروائی انجام دی تھی جس میں اس ملک کے کئی عام شہری مارے گئے تھے۔ تجربات سے ثابت شدہ ہے کہ اگر علاقے اور عالمی سطح پر مختلف ممالک ایک باقاعدہ میکانزم کے تحت اور باہم متحد ہوکر دہشت گردی کے مقابلے کا عزم کریں تو دہشت گردی سے کامیاب مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال، اس وقت انڈونیشیا سمیت کہیں بھی قومی اتحاد اور سماجی انصاف کا نفاذ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ذریعہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جب تک کہ عالم اسلام مکمل آگہی، شعور، ہوشیاری اور باہمی تعاون کے ساتھ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف اجتماعی قدم نہیں اٹھاتا تاہم انڈونیشیا اس مسئلے میں اہم اور بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔