صدر مملکت کا دورہ قزاقستان
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی علاقے کے اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ پہنچے
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی علاقے کے اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ پہنچے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے قزاقستان سے پہلے آرمینیا کا دورہ کیا تھا۔ صدر روحانی کے دورہ آرمینیا میں تعاون کی پانچ دستاویزات اور سمجھوتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ تعاون کی ان دستاویزات پر اسلامی جمہوریہ ایران اور آرمینیا کے حکام نے دستخط کئے ہیں۔ان دستاویزات پر عمل درآمد سے تہران اور ایروان کے درمیان تعاون کا نیا باب کھل جائے گا۔
صدر جناب حسن روحانی اور نور سلطان نظربایف نے جمعرات کو مختلف میدانوں میں تعلقات بڑھانے کے بارے میں گفتگو کی۔ان مذاکرات کے موقع پر ایران و قزاقستان کے مابین پانچ تعاون کی دستاویزات پر دستخط ہوئے۔ تعاون کی ان اسناد میں بحیرہ خزر میں جہاز رانی، صنعت سیاحت اور باہمی تجارت کو آسان بنانے کے لئے بینکنگ امور میں تعاون کرنا شامل ہے۔ آرمینیا اور قزاقستان اور قرقیزستان مغرب، مشرق اور شمال کو متصل کرنے کے لئے ایران کے کوریڈور کا ایک حصہ ہیں۔ یوریشیا کا جغرافیائی علاقہ ایران کی خارجہ پالیسی میں نہایت اہم پوزیشن کا حامل ہے۔ اشتراکات و تاریخی و ثقافتی رشتے نیز تیل اور گیس کی عظیم توانائیوں نے مشترکہ سرمایہ کاری کے لئے ایران اور بحیرہ خزر کے ملکوں کے سامنے ممکنہ مواقع پیدا کردئے ہیں جو ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر مختلف میدانوں میں تعلقات میں فروغ لانے کی زمین ہموار کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں عملی نمونوں سے لے کر ایران اور بحیرہ خزر کے ملکوں کے درمیان اسٹراٹیجیک تعلقات اور تعاون برقرار کرنا پیش نظر ہے اور یہ رقابت ایران اور علاقے کی باہری طاقتوں کےدرمیان جاری ہے۔ البتہ یہ بات کہ آئیڈیل نظریات پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے اور کس حد تک آئیڈیاز عملی شکل اختیار کرتے ہیں، یہ بات مختلف عوامل پر منحصر ہے۔ان عوامل میں سے ایک مرکزی ایشیا اور قفقاز میں ایران کی نسبتا اچھی پوزیشن اور تاریخی اور ثقافتی اشتراکات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ ان تعلقات کا ایک اور عامل یہ ہےکہ مرکزی ایشیا اور قفقاز کے علاقے کے ملکوں کو آزاد پانیوں تک رسائی کی ضرورت ہے اور وہ ایران کے سہارے یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ تیسرا عامل ان تعلقات میں یہ ہوسکتا ہے کہ بحیرہ خزر کے علاقے سے جو تیل اور گیس سے مالا مال ہے اور انرجی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے تیل اور گیس اور ایندھن کے ان ملکوں کو ان ذخائر کی منتقلی کے مشترکہ پروجیکٹوں میں تعاون کرنا چاہیے ۔قزاقستان اور ترکمنستان کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے میں ایران کا تعاون، سہ فریقی تیل پائپ لائیں بچھانا ایران اور قزاقستان اور ترکمنستان کا تعاون ایک اچھا موقع ہے لیکن کافی نہیں ہے کیونکہ ان ملکوں کے تعاون میں اب بھی بہت سے چیلنج موجود ہیں۔ ان میں ایک چیلنج ایران اور علاقے کے ملکوں کی توانائیوں سے آشنا نہ ہونا ہے۔ درام کئے جانے والی مصنوعات کا محدود ہونا اور بحیرہ خزر کے ملکوں کے ساتھ ایران کے مناسب بینکنگ تعلقات نہ ہونا اور ٹرانزیٹ اور ٹرانسپورٹ کی مشکلات کا ہنوز باقی رہنا ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں یہ امید تو کی جاسکتی ہے کہ آئندہ برسوں میں کم ہوتے جائیں گے لیکن بدستور علاقائی ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی کا سبب بن رہے ہیں۔ تجارت کا عالمگیر ہونا اور معیشتوں کا ایک دوسرے میں ضم ہوجانا ایسے ملکوں کے لئے جو ایک دوسرے کے ساتھ جامع تعاون نہیں کرسکتے وہ موجودہ حالات میں کا میاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسی تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی ایشیا کی منڈی میں داخل ہونا بشرطیکہ باہمی شراکت اور مشترکہ مفادات کی روسے ایک موقع ہے اور وہ اس تعاون کی زمین ہموار کرسکتا ہے۔علاقائی تعاون تنظیموں کا مضبوط بنانا جو یک قطبی نظاموں کے وجود میں آنے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور دنیا میں بڑی طاقتوں کے تسلط کا سد باب کرتا ہے۔اس طرح سے تعاون کرنا علاقے کی قوموں اور دنیا کی اقوام کے لئے مفید ہوگا۔ ایران کی سفارتکاری نے اسی اپروچ کے ساتھ اپنی سفارتکاری کے ذریعے علاقائی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ اب ایٹمی بہانے سے ایران اور مغرب کی صف آرائی اور بین الاقوامی پابندیوں نیز اقوام متحدہ اور امریکہ کی یطرفہ پابندیوں کا وقت ختم ہوچکا ہے۔اسی بنا پر ایران دیگر ملکوں کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے تعلقات بڑھانے کو تیار ہے لھذا اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب حسن روحانی کا یہ دورہ ایران اور کئی ملکوں کے درمیاں تعاون کی راہ میں نہایت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔