سال 2017 کا آغاز اور درپیش چیلنجز
دوہزار سترہ کا آغاز ایسی حالت میں ہوا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کےنتیجے میں پینتیس افراد ہلاک اور چھیالیس دیگر زخمی ہوگئے- اس واقعے سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ ممکن ہے نیا سال 2017 گذشتہ برسوں کی نسبت زیادہ بدامنی سے دوچار رہے-
دہشت گردی کی جڑوں اور اس بنیادی وجوہات سے عالمی برادری کی بے توجہی اور اس کو سیاسی مقاصد میں استعمال کرنے کے سبب ، اب دہشت گردی ایک بڑی مسئلے میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس وقت پوری دنیا میں پھییل گئی ہے- ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ 2017 میں دہشت گردی کا یہ عفریت مزید انسانوں کی جانیں لے گا اور مزید بڑے علاقوں کو ویران کردے گا- شام اور عراق میں داعش کی پے در پے شکست اس بات کا سبب بنی ہے کہ دہشت گرد عناصر یورپ ، امریکہ اور شمالی افریقہ میں اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اپنے ملکوں میں جاکر تباہ کن اقدامات انجام دیں- البتہ صرف دہشت گردی اور تشدد پسندی ہی نئے سال دوہزار سترہ میں انسانوں کو درپیش نہیں رہے گی بلکہ بین الاقوامی نظام پر اثر انداز ملکوں کے درمیان اختلافات بھی ، دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگی کو دشواریوں اور خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں- مثال کے طور پر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی ملکوں کے درمیان ، پیرس آب و ہوا معاہدے پر اختلاف نظر کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- اگر ٹرمپ کی جانب سے، بقول ان کے کہ وہ امریکہ کو پیرس معاہدے سے نکال لیں گے، ایسا کئے جانے کی صورت میں دنیا کو وسیع پیمانے پر ماحولیات کی آلودگی کا سامنا کرنا پڑجائے گا اور آب و ہوا کی تبدیلی سے وسیع پیمانے پر انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی-
دوسری جانب امریکہ کے صدراتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے، دنیا کی بڑی عالمی اقتصادی طاقتوں کے درمیان، تجارتی رقابت کے میدان میں تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے- اگر امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مسائل کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر مقابلہ آرائی ہوتی ہے تو دنیا کی کمزور معیشت پر ماضی سے زیاد دباؤ قائم ہوگا اور آخرکار اس کے نتیجے میں، دنیا کے کمزور ملکوں اور ان میں بسنے والے کروڑوں افراد کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ رواں سال میں یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے فیصلے پر عملدرآمد نے ، معاشی اور اقتصادی تشویش میں اضافہ کردیا ہے- اگر رواں سال دوہزار سترہ میں فرانس کے صدارتی انتخابات میں، یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے والے دھڑوں کو کامیابی مل جاتی ہے تو اس صورت میں ممکن ہے کہ دوہزار سترہ کا سال یورپ میں باہمی اتحاد کے خاتمے کا سبب بن جائے-
البتہ دوہزار سترہ کے آغاز میں سیاسی ، اقتصادی اور سیکورٹی سے متعلق لاحق تشویش سے قطع نظر ، دوہزار سولہ کے آخری دنوں میں شام میں جنگ بندی کی حمایت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد کی منظوری امید افزا تھی کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے سے بڑے بحرانوں کو حل کیا جاسکتا ہے- یہ بحران ، دراصل شام کے داخلی معاملات میں مغربی اورعرب ملکوں کی مداخلت اور ان ملکوں کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت کے نتیجے میں وجود میں آیا - اقوام عالم کو درپیش ایک اہم مسئلہ، امن و امان کی بحالی ہے چنانچہ مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کی پالیسیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بے مثال قرارداد کے نتائج کا تحفظ ، دوہزار سترہ میں عالمی برادری کی ایک اہم تشویش ہوگی-
بہر صورت اگر چہ دوہزار سترہ کے سال کا آغاز استنبول میں دھماکے سے ہوا ہے لیکن اگر عالمی برادری دہشت گردی کے فروغ ، اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کا ڈٹ کر مقابلہ کرے تو دوہزار سترہ میں امید افزا تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے-