Feb ۱۶, ۲۰۱۷ ۱۴:۱۳ Asia/Tehran

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بارہ فروری کو بحرین ، تیرہ کو سعودی عرب اور چودہ فروری کو قطر کا دورہ کیا ہے۔ ترک صدر نے بحرین کے دورے میں اس ملک کے بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ اور ریاض میں شاہ سلمان سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات میں تقویت لانے پر تبادلہ خیال کیا

 انہوں نے قطر میں بھی شیخ تمیم سے باہمی تعلقات اور تعاون کے بارے میں گفتگو کی۔ اردوغان جو عثمانی سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے آج کل ان کے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ رجب طیب اردوغان نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ  کشیدگی کم کرنے کی پالیسی اپنائی جس کی وجہ سے انہوں نے اقتصادی لحاظ سے ترکی کو کافی آگے بڑھایا اور ترقی کی  لیکن انہوں نے سعودی عرب اور قطر کی طرح دوہزار گیارہ میں عرب ملکوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد ، پڑوسی ملکوں میں کشید گی کو ہوا دینا شروع کردیا اور بعض ملکوں میں  افر تفری پھیلانے میں نہایت منفی کردار ادا کیا۔ اردوغان کی پالیسیاں نہ صرف نو عثمانی رجحان کو تقویت  پہنچانے کا باعث نہیں بنیں بلکہ ان کی مقبولیت کا گراف بھی گرنے لگا اور ترکی، عدم استحکام اور بے ثباتی کا شکار ہونے لگا۔ رشیا ٹوڈے کے رپورٹر اس بارے میں کہتے ہیں کہ  حالیہ تبدیلیوں سے انقرہ اس بات پر مجبور ہوا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اپنے اتحادیوں پر نظر ثانی کرے، اردوغان  اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد اپنے حساب و کتاب پر نظر ثانی کرکے حقیقت  پسندانہ نگاہ سے اپنے دوستوں کو دشمنون سے الگ کرنے میں مصروف ہیں۔

ترکی کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ اور جولائی دوہزار سولہ کی ناکام فوجی بغاوت، ترکی میں رجب طیب اردوغان اور ان کی پارٹی انصاف اور ترقی  کی مخالفت میں تیزی آنے کا سبب بنی۔ اس کےعلاوہ دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور بے روزگاری بھی بڑھتی رہی ۔

ان حالات کے پیش نظر اردوغان نے ایسی حالت میں بحرین اور سعودی عرب کا دورہ کیا ہے کہ جب داخلی سطح پر ان کے اس دورے کی بہت زیادہ مخالفت کی گئی ہے خاص طور پر یونیورسٹی اساتذہ نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے ۔ اردوغان کے دورہ بحرین، سعودی عرب اور قطر کے دورے کا مقصد عرب حکام کو ترکی میں اقتصادی میدان میں سرمایہ کاری کرنے پر ترغیب دلانا ہے یہانتک کہ شام کےبحران کے بار ےمیں بھی اگر گفتگو ہوئی ہے تو وہ اقتصادی لحاظ سے ہوئی ہے۔ الجزیرہ عربی چینل کے رپورٹر محمد ابراہیم انقرہ سے کہتے ہیں کہ انقرہ خلیج فارس کے ملکوں کے لئے ایک طاقتور اتحادی کے روپ میں ظاہر ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردوغان کا خلیج فارس کے تین ملکوں کا دورہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ فریقوں نے بڑے وسیع سمجھوتے کئے ہیں اور یہ سمجھوتے بہت سے مسائل منجملہ شام کے بحران کے بار ے میں بھی ہیں۔  ادھر سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے گذشتہ ہفتے انقرہ میں کہا تھا کہ شام کے تعلق سے ترکی اور سعودی عرب کے موقف ایک جیسے ہیں ۔ البتہ حالیہ مہینوں میں ترکی کی پالیسیوں میں تبدیلی سے پتہ چلتا ہے کہ انقرہ نے شام کے تعلق سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرلی ہیں اور بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے موقف سے پسپائی اختیار کرلی ہے اردوغان نے ایسے عالم میں بحرین، سعودی عرب اور قطر سے ترکی میں سرمایہ کاری کی توقع لگارکھی ہے جبکہ خود ان ملکوں میں حالات اچھے نہیں ہیں۔  

 

ٹیگس