بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال اور اقوام متحدہ
بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال کے زیر عنوان اقوام متحدہ کا ستائیسواں اجلاس جنیوا میں شروع ہوگیا ہے۔ اس اجلاس میں شریک ممالک نے پیر کے دن آل خلیفہ حکومت کے سامنے انتالیس سوالات رکھتے ہوئے اس اجلاس کا آغاز کیا۔
بحرین میں انسانی حقوق کے سلسلے میں سرگرم اقوام متحدہ کی ٹیم کے مطابق اکانوے ممالک نے بحرین میں مداخلت اور اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
قومی اور بین الاقوامی تنظیموں نے سنہ 2012ء سے سنہ2017 ء تک کے برسوں کے دوران بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہت ہی ابتر قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے شہریت کی منسوخی، زبردستی ملک بدر کئے جانے، باہر جانے پر پابندی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ماہرین قانون کی شرکت کی ممانعت، پرامن مظاہروں میں شرکت پر پابندی اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر عالمی سطح پر پائی جانے والی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بحرین میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق بلائے جانے والے متعدد بین الاقوامی اجلاسوں سے بھی اسی حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان حالات میں آل خلیفہ حکومت عالمی اداروں میں اپنے مظالم کے فاش ہونے کی روک تھام کرنے کے لئے ہمیشہ سے قانونی اداروں میں انسانی حقوق کے میدان میں سرگرم بحرینی کارکنوں کی شرکت کے سدراہ ہوتی رہی ہے۔ بحرینی حکام نے ہمیشہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاسوں میں بحرین کے انسانی حقوق کے کارکنوں کی شرکت کی روک تھام کی کوشش کی ہے۔ بحرین میں چودہ فروری سنہ 2011ء سے آل خلیفہ حکومت کے ظلم و ستم اور گھٹن کے ماحول کے خلاف عوامی تحریک جاری ہے۔ اس ملک کے لوگ آزادی، عدل کی برقراری، امتیازی سلوک کے خاتمے اور منتخب عوامی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ بحرین کی حکومت نے عوامی تحریک کو دبانے کے لئے بحرین کے بہت سے شہریوں، نوجوانوں، سیاسی شخصیات اور کارکنوں کو گرفتار کر کے ان کو طویل مدت قید کی سزا سنائی ہے۔ آل خلیفہ حکومت کی تشدد آمیز پالیسیوں کے نتیجے میں اس ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب آل خلیفہ حکومت نے بہت سی سیاسی شخصیات اور کارکنوں کی شہریت سلب کر کے عملی طور پر بحرین کی آبادی کا تناسب بگاڑنے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ بحرینی شہریوں کی شہریت سلب کئے جانے پر مبنی آل خلیفہ حکومت کا اقدام واضح طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی منشور کی شق نمبر پندرہ کے مطابق تمام افراد کو شہریت کا حق حاصل ہے اور کوئی بھی کسی کی شہریت کو منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اس تناظر میں بحرین میں حکومت کے مخالفین کی شہریت کا سلب کیا جانا انسانی حقوق کے بین الاقوامی منشور کے منافی ہے جس میں افراد کی شہریت کو ایک مسلمہ اور اٹل حق اور شہریت کی منسوخی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آل خلیفہ حکومت عوامی تحریک کو کچلنے کے علاوہ مخالفین کو اس ملک کے سیاسی اور سماجی دھارے سے خارج کرنے اور عالمی سطح پر ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے ہر حربہ آزما رہی ہے اور ہر طرح کی پالیسی اختیار کر رہی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب آل خلیفہ حکومت کے تشدد کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ چیز بحرین سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں اور کمیٹیوں کی رپورٹوں نیز بحرین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی جانب سے بین الاقوامی اور علاقائی اجلاسوں کو بھیجے جانے والے خطوط میں واضح طور نظر آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ کی جانب سے آل خلیفہ کی ظالم حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جانا رائے عامہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور اس صورتحال کے جاری رہنے سے یہ حکومت فارغ البالی کے ساتھ بحرینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔