افغانستان میں مسجد پر دہشت گردانہ حملہ ، متعدد شہید اور زخمی
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعے کے روز مسجد امام زمان پر دہشتگرادانہ حملے کے نتیجے میں عام شہریوں اور پولیس اہلکاروں سمیت بیس سے زائد افراد شہید اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے- اس دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف ملکی اور علاقائی سطح پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں گذشتہ تین سال کے دوران، دہشت گرد گروہ داعش کے وجود میں آنے کے بعد سے مذہبی مقامات منجملہ مساجد اور نمازیوں پر حملے شروع ہوگئے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان میں دسیوں سال جنگ اور خونریزی کے باوجود ، اس جنگ نے کبھی بھی مذہبی جنگ کا رخ اختیار نہیں کیا تھا اور قومی اختلافات کے باوجود شیعہ اور سنی اپنے مشترکہ دشمن سے مل کر لڑتے رہے ہیں- اس بناء پر افغانستان میں ایک منظم منصوبے کے تحت ایسے اقدامات انجام پا رہے ہیں جن کا مقصد مذہبی جنگ چھیڑ کراس ملک کو ایک اور خانہ جنگی میں جھونکنا ہے- علاقے میں فرقہ واریت کی جڑ ، پاکستان کے دینی مدارس اور وہابیوں کی سرگرمیاں ہیں چنانچہ سعودی عرب کے توسط سے سن ساٹھ کے عشرے سے، پاکستان میں بیس ہزار سے زائد دینی مدارس سرگرم ہیں اور سعودی عرب نے ان دینی مدارس کے لئے بھاری سرمایہ خرچ کیا ہے - ان دینی مدارس میں بیشتر انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں اور متعدد دہشت گرد گروہ منجملہ لشکر جھنگوی ان ہی دینی مدارس کے زیر نظر ہیں- کابل میں تین سال قبل عاشور کے جلوس پر ہونے والے حملے سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ انتہا پسند عناصر اپنے آقاؤں کی نئی پالیسوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے افغانستان میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ و خونریزی کو ہوا دے رہے ہیں-
افغانستان کے روزنامہ عصر نو کے چیف ایڈیٹر سید اسحاق شجاعی اس بارے میں کہتے ہیں: "کابل میں شیعوں کے خلاف ہونے والا حالیہ حملہ ہو یا افغانستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے حملے ہوں ، یہ حملے گروہ طالبان اور یا داعش کے عناصر، انتہاپسندانہ اور تکفیری محرکات کے ساتھ نیز عرب کے ڈالروں خاص طورپر سعودی عرب کے پٹرو ڈالروں کے زیر اثر انجام دے رہے ہیں۔"
یہی وجہ ہے کہ افغانستان، پاکستان اور علاقے میں موجود سیاسی اور علاقے کے سیکورٹی اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان کی حکومت پورے ملک خصوصا صوبہ پنجاب کے دینی مدارس پر کنٹرول کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گی تب تک نہ صرف خطے میں تشدد اور انتہا پسندی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا بلکہ انتہا پسند اور تشدد پسند گروہوں کی مالی حمایت اور ان کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے سبب تشدد اور فرقہ واریت میں شدت پیدا ہوگی۔
وہ چیز جو افغانستان میں جنگی تغیرات اور تبدیلیوں کے تعلق سے تشویشناک ہے یہ ہے کہ مختلف مواقف اور نظریات کے حامل خاموش دہشت گرد گروہوں میں اضافہ ہو رہاہے کہ جو داعش دہشت گرد گروہ کے پرچم کے سائے میں یہ جارحتیں انجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ قومی اور سیاسی جنگ کی اسٹریٹیجی کا مذہبی اسٹریٹیجی میں تبدیل ہونا، عرب حلقوں اور امریکی ایماء پر انجام پا رہا ہے اور اس سے افغانستان کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے-
بہرحال اسلامی مقدسات منجملہ مساجد پر دہشت گردانہ حملوں کی تکرار، افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے لئے ٹھوس خطرہ ہیں اور اس کے لئے ضرورت اس بات ہے کہ حکومت اپنے آپسی اختلافات بھلاکر اور عوامی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو جو بیرونی حمایتوں کے ذریعے دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اگرچہ کابل کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افغانستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا اور انہوں نے علمائے کرام سے ان پرتشدد حملوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل بھی کی ہے، لیکن افغان صدر اشرف غنی کا امریکہ پر بھروسہ ، کہ جسے دوطرفہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے ذریعے انہوں نے ایک بار پھر رونق بخشی ہے، افغانستان کی سلامتی میں کوئی مدد نہیں کرسکتا کیوں کہ امریکہ افغانستان میں صرف اپنے مفادات کا درپے ہے اور اس ملک کے حالات جتنا زیادہ بحرانی ہوں گے امریکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔