Sep ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۵ Asia/Tehran
  • ایران ، ہندوستان اور عمان کا سہ فریقی مشترکہ اجلاس

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف، عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی اور ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک سہ فریقی اجلاس میں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کےبارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے- ایٹمی معاہدہ اس اجلاس کا ایک موضوع تھا-

عمان ان جملہ ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے میں اپنا رول ادا کیا ہے- امریکہ  بھی ایٹمی معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے اس بات کا پابند بنا کہ ایران کے خلاف عائد شدہ پابندیوں کو سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق منسوخ کردے اور ہر اس اقدام سے اجتناب کرے جو ایران میں اقتصادی سرگرمیوں یا سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنے-لیکن اس وقت مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کی امریکہ کی جانب سے خلاف ورزی جاری ہے اور اس بات میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے- مشترکہ جامع ایکشن پلان کی شقوں 26 ، 28 اور 29 میں ان مسائل کی پابندی کئے جانے پر تاکید کی گئی ہے- لیکن مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ان سے امریکہ کے توسط سے ان شقوں کی خلاف ورزی کی نشاندہی ہوتی ہے- امریکہ یہ دعوی کرتا ہے کہ ایران نے بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کرکے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رعایت نہیں کی ہے اس لئے ایران ایک خطرہ شمار ہوتا ہے اور اس بہانے سے کہ جس کا کوئی بھی ربط ایٹمی معاہدے اور ایٹمی مذاکرات سے نہیں ہے، ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کردی ہیں-

یہ پابندیاں تین مسائل ، بیلسٹک میزائلوں کے تجربوں کی مخالفت ، ایران کو علاقے کے لئے خطرہ قرار دینے نیز ایران پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرنے پر مرکوز ہیں- جو سوال یہاں پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ کیوں امریکہ نے غیر ایٹمی مسائل کو نشانہ بنا رکھا ہے اور اسے ایٹمی معاہدے سے جوڑنے کے درپے ہے۔ کیا ٹرمپ کا مقصد ایٹمی معاہدے کو ایک بے اثر معاہدے میں تبدیل کرنا اور یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جانا ہے ؟ یا پھر امریکہ کا مقصد علاقے میں ایران کی دفاعی طاقت کو کمزور کرنا ہے؟ امریکی ماہر جیم والش نے پریس ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں ، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری نظر میں پابندیوں کی پالیسی ایک احمقانہ پالیسی ہے ، پابندیاں ایران کے میزائل پروگرام کو روک نہیں سکتیں- روزنامہ نیویارک ٹائمز بھی ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ٹرمپ  بنیادی طور پر ایران کی مخالفت کا ڈھونگ رچا رہے ہیں تاکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے خارج ہوجائیں - البتہ ابھی یہ محض ایک امکان ہے-

یہ مسائل حتی مشترکہ جامع ایکشن پلان سے قبل بھی موجود تھے- بالفاظ دیگر یہ امریکی طرز فکر اور رویہ، ایران کے ساتھ امریکہ کی دیرینہ دشمنی جاری رہنے کا آئینہ دار ہے کہ جو ایک زمانے میں ایٹمی مسئلے پر مرکوز تھا- لیکن پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ ایٹمی معاہدہ انجام پانے کے بعد یہ مسئلہ ختم ہوگیا اور امریکہ ، ایٹمی معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے اس بات کا پابند بنا کہ وہ ایران کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں کو سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق منسوخ کرے گا اور ہر اس اقدام سے جو ایران میں اقتصادی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنے اس سے اجتناب کرے گا-

بہرصورت ایران کے نقطہ نگاہ سے اس کا جواب اور ردعمل بہت واضح ہے - رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سے قبل جون دوہزار سولہ میں ایک خطاب میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا فرمایا تھا کہ امریکہ کے نامزد امیدوار یہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے کو پارہ کردیں گے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ایران اسے آگ میں جلا دے گا - رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہمارے دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی و پیشرفت کو روک دے یا ان صلاحیتوں کو تباہ کردے ، فرمایا تھا کہ ایران جہاں تک ممکن ہوسکے گا اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا رہے گا-

وائٹ ہاؤس کے حکام نے گذشتہ چند برسوں کے دوران ایران کے خلاف نئے اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ایران پرعلاقے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزام سے لے کرٹرمپ کا بے بنیاد دعوی، کہ جس میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، اس کے علاوہ ایران کی میزائل کی دفاعی صلاحیت کو مغرب کے سیاسی اور خبری حلقوں کی جانب سے خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش ، یہ سب ایرانو فوبیا کا حصہ ہیں- اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کا مسئلہ ایٹمی معاہدے کی مخالفت نہیں ہے بلکہ امریکی موقف، اسلامی نظام کی مخالفت اور اس سے دشمنی ہے۔

ٹیگس