Sep ۲۵, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۹ Asia/Tehran
  • سرحدوں کی بندش اور عراقی کردستان کے جیوپولیٹیکل مسائل

عراقی کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی کی جانب سے ریفرنڈم کرائے جانے پر اصرار کے نتیجے میں ،عراق کی حکومت اور عراقی کردستان کے پڑوسی ملکوں نے ،اپنی فضائی سرحدیں بند کردی ہیں-

عراق سے کردستان کے علاقے کی علیحدگی کے سلسلے میں ریفرنڈم آج پچیس ستمبر کو شروع ہوگیا - عراق کی حکومت اور اس کے پڑوسی ملکوں نے کردستان کے اس اقدام کے خلاف اپنا پہلا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کردستان سے ملنے والی سرحدیں بند کردی ہیں- عراق ، ترکی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے کردستان کی فضائی سرحدیں بند کئے جانے کے بعد یہ علاقہ عملی طور پر فضائی محاصرے میں آگیا ہے- عراقی کردستان سے ملحقہ ترکی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی زمینی سرحدوں پر بھی سیکورٹی تدابیر سخت کردی گئی ہیں یہاں تک کہ یہ خبریں آرہی ہیں کہ ترکی نے "خابور" نامی سرحدی گذرگاہ کو بند کردیا ہے- یہ اقدام ، کہ جو عراق سے کردستان کے علاقے کی غیر قانونی علیحدگی پر پہلا ردعمل شمار ہوتا ہے ، کردستان کے علاقے کے جغرافیائی حدود میں گھیر جانے کے مترادف ہے کیوں کہ اس علاقے کا آزاد سمندر سے کوئی راستہ نہیں ملتا اور یہ علاقہ جغرافیائی سرحدوں کے لحاظ سے عراق، ترکی، ایران اور شام کے محاصرے میں ہے- 

عراقی مسائل کے ماہر اور یونیورسٹی پروفیسر علی اکبر اسدی کہتے ہیں کہ عراقی کردستان کا خشکی میں محصور ہونا اور آزاد سمندروں اور سمندری راستوں تک اس کی عدم دسترس، عراقی کردوں کا اہم ترین جیوپولیٹیکل مسئلہ ہے کہ جس نے انہیں پڑوسی ملکوں کا دست نگر بنا دیا ہے- 

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ عراقی کردستان کا جغرافیائی محاصرہ اور سرحدوں کا بند کیا جانا، اس علاقے کے لئے کن منفی نتائج کا حامل ہوگا؟ 

عراقی کردستان کا جغرافیائی محاصرہ کئے جانے سے سب سے اہم جو مسئلہ پیش آئے گا وہ اس علاقے کی اقتصادی مشکل ہوگی- عراقی کردستان کا اہم ترین ذریعۂ آمدنی تیل کی فروخت ہے- کردستان ، روزانہ تقریبا ساڑھے تین لاکھ بیرل یومیہ تیل برآمد کرتا ہے- لیکن اس کا یہ تیل ایران اور ترکی کی سرحدوں سے دیگر ملکوں میں بھیجا جاتا ہے- سرحدوں کا بند کیا جانا کردستان کو تیل کی فروخت سے محروم کرتا ہے۔ عراقی حکومت نے بھی، کردستان کے علاقے کی تیل کی آمدنی سے شدید وابستگی کے پیش نظر، دیگر ملکوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ کردستان سے تیل کی خریداری نہ کریں- ترکی، عراقی کردستان کے تیل کا اصلی خریدار ہے اس وقت کہ جب ترکی نے اپنی سرحدیں کردستان پر بند کردی ہیں فطری طور پر وہ کردستان سے تیل بھی نہیں خریدے گا - اس لئے مسعود بارزانی کا ریفرنڈم کرانے کا یکطرفہ اقدام، کردستان کے علاقے میں مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے- 

کردوں کی تاریخ تقریبا 2 ہزار سال پرانی ہے۔ کرد دراصل مشرق وسطیٰ کے شمال میں رہتے ہیں۔ کردوں کی کل تعداد 30 سے 45 ملین کے لگ بھگ ہے، جن میں سے 25 فیصد کرد ترکی، 16 فیصد ایران، 15فیصد عراق اور 6 فیصد شام میں رہتے ہیں، جب کہ لبنان، آرمینیا، مقبوضہ فلسطین، کویت اور یورپ سمیت دنیا بھر کے30 مختلف ممالک میں بھی کردوں کی کثیر تعداد رہائش پذیرہے۔ کرد اکثریت سنی مسلم ہیں، جب کہ شیعہ کردوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جن کی اکثریت اسلامی جمہوری ایران میں رہائش پذیر ہے۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ  دو لاکھ یہودی کرد ، مقبوضہ فلسطین میں بھی رہائش پذیر ہیں جنہیں اسرائیل کردستان منتقل کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ عراق، ایران اور شام کی سرحدوں سے جڑے ہوئے اس علاقے میں ایک اور اسرائیل کی بنیاد رکھی جا سکے۔

اسی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کردستان کی علیحدگی کے لیے اتنے پر کیوں ماررہا ہے۔ عراق اور شام میں القاعدہ اور داعش کا ڈرامہ رچانے اور دہشت گردی کا بازار گرم کرنے کے پیچھے بھی اصل ہدف یہی تھا کہ کسی طرح مشرق وسطیٰ کے معدنیات اور تیل سے مالامال اور انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل خطوں کو انتشار اور خلفشار میں الجھا کر ان پر قبضہ جمایا جائے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو آگے بڑھایا جائے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عراقی کردستان ریجن کے سربراہ مسعود بارزانی کی جانب سے پچیس ستمبر کو ریفرنڈم کے انعقاد پر، عراقی حکومت اور ملک کی سیاسی جماعتوں نیز اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی کی حکومتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

 

       

 

 

ٹیگس