Sep ۲۵, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۱ Asia/Tehran
  • امریکہ پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جاسکتا: وزیر خارجہ ایران

وائٹ ہاؤس نے پیر کی صبح کو سفری پابندیوں کی نئی فہرست میں تبدیلیاں انجام دیتے ہوئے شمالی کوریا، صومالیہ اور چاڈ کا نام بھی شامل کیا ہے، جبکہ ایران، لیبیا، شام، ونیزویلا اور یمن کا نام پہلے ہی اس فہرست کا حصہ تھا، سوڈان کا نام اس فہرست سےنکال دیا گیا ہے-

سفری پابندیوں کی اس نئی فہرست میں، ایرانی باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی ہے لیکن اگر کوئی مورد تائید طالب علم اس ملک میں ہے تو وہ  کڑی نگرانی میں امریکہ میں رہ کر تعلیم حاصل کرے گا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر ٹرمپ کے اس اقدام کے ردعمل میں لکھا ہے کہ باوقار ایرانیوں کے لئے ٹرمپ کی جھوٹی ہمدردی وہ بھی نئے ایمیگریشن قانون کے ساتھ ، انتہائی توہین آمیز اور ہمیشہ سے زیادہ گھٹیا اور پست اقدام ہے-   

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دستخط کردہ اس فہرست پر 18اکتوبر سے عمل درآمد شروع ہو جائے گا، نئی فہرست ، پچھلی فہرست کے 90 روز مکمل ہونے پر جاری کی گئی ہے۔

ایران اور امریکہ کے تعلقات کے شعبے میں سیاسی تبدیلیوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور آئے دن یہ دشمنی مزید آشکارہ ہوتی جا رہی ہے- امریکہ ماضی کے اپنے وہم و گمان کے دائرے میں یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایران کو اپنے مدنظر شرائط قبول کرنے پر مجبور کردے گا- بہت سے افراد کے لئے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس طرح غیر سفارتی اقدامات انجام دینے سے امریکی حکومت کن مقاصد کے حصول کے درپے ہے؟ اگرچہ ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی امریکہ نے ایران سے اپنی دشمنی کا آغاز کردیا تھا اور یہ دشمنی اس لئےبھی ہے کہ ایران نے امریکہ کی حقیقی ماہیت سب پر واضح کردی ہے اور ایران میں امریکہ کا عمل دخل ختم کردیا اور ایران سے اس کی بساط لپیٹ دی- 

اس وقت  ٹرمپ حکومت اپنے تکراری دعووں کے ذریعے دو ہدف اور مقصد کے درپے ہے-

اول تو یہ کہ دہشت گردوں کی حمایت کے الزام کے بہانے ایران پر دباؤ میں اضافے کے لئے نیا محاذ قائم کرے- اور دوسرے یہ کہ ایران کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے ایران کو بیلسٹک میزائلوں کی تیاری سمیت غیر ایٹمی سرگرمیوں سے باز رکھے-

البتہ اس سلسلے میں دیگر اہداف بھی قابل غور ہیں- بہر حال امریکہ ان اقدامات کے ذریعے ،علاقے میں رونما ہونے والے اہم مسائل کی وجہ تلاش کرنے کے بجائے، مسئلے کی صورت کو تبدیل کرنے میں کوشاں ہے - اسی تناظر میں ٹرمپ حکومت کی کوشش ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی غیر حقیقی تصویر پیش کرے جیسا کہ جنرل اسمبلی میں اس کی تقریر میں مکمل طور پر اس کا مشاہدہ کیا گیا

لیکن امریکہ کے مقابلے میں ایران کی اسٹریٹیجی کیا ہوگی ؟ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اتوار کو سی این این سے گفتگو میں اینکر کے اس سوال کے جواب میں کہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کی صورت میں ایران کا ردعمل کیا ہوگا کہا کہ ایران کے پاس متعدد آپشن موجود ہیں جن میں ایٹمی معاہدے سےنکلنا، پرامن ایٹمی سرگرمیوں میں اضافہ اور رضاکارانہ طورپر بند کی گئی ایٹمی سرگرمیوں کی دوبارہ بحالی جیسے آپشن موجود ہیں-

نیویارک ٹائمز نے بھی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے کہا ہے کہ وہ اس طرح سے رپورٹ تیار کریں تاکہ وہ ایران پر ایٹمی معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرسکیں-

اس اخبار کے مطابق امریکیوں نے اپنے اتحادی ملکوں کو خبر دی ہے کہ خود کو ایران کے ساتھ  نئے دور کے مذاکرات میں شرکت کے لئے آمادہ کریں ورنہ پھر آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق پیرس سمجھوتے کی طرح، ایٹمی معاہدے سے بھی امریکہ کے نکل جانے کا انتظار کریں-  

امریکہ کی ان ہی خلاف ورزیوں اور وعدہ خلافیوں کے سبب ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اقدامات جو اس وقت امریکہ انجام دے رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ملک قابل بھروسہ نہیں ہے-  

 

ٹیگس