Sep ۲۶, ۲۰۱۷ ۱۷:۴۱ Asia/Tehran
  • عراق کی صورتحال کے بارے میں ایران کی مشاورت

کردستان کےعلاقے کو عراق سے علیحدہ کرنے سے متعلق ریفرینڈم کی وسیع پیمانے پر اندرونی اور بیرونی مخالفت کے باوجود پیر کے دن ریفرینڈم کرایا گیا۔ خطے میں اہم واقعات رونما ہونے کے موقع پر اس ریفرینڈم کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس کی وجہ سے بعض سوالات اٹھ رہے ہیں اور تشویش پیدا ہوگئی ہے۔

ایسے وقت میں کہ جب دہشت گرد گروہ داعش کا قلع قمع بالکل قریب ہے، عراقی  حکومت کو کمزور اور اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا راستہ ہموار کرنے کے معنی ایک نئی جنگ شروع کرنے کے سلسلے میں شرپسند گروہوں کو گرین سگنل دینے کے ہیں۔ قرآئن سے بھی اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس ریفرینڈم سے خطے میں ایک نئی کشمکش کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ عراق کے ہمسایہ ممالک اور ایران کے نزدیک اہم مسئلہ اور تشويشناك بات عراق میں ایسی کسی بھی کشمکش کا پیدا ہونا ہے جس کے اثرات ہمسایہ ممالک تک پہنچتے ہوں۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے ساتھ ٹیلی فونی گفتگو کے دوران یہ بات زور دے کر کہی کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کی مرکزی حکومت کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ترکی کے صدر  کے ساتھ ٹیلی فونی گفتگو میں بھی واضح کیا کہ خطے کی سیکورٹی اور عراق کی ارضی سالمیت نیز اس کا قومی اتحاد عراق کے ہمسایہ ممالک اور خطے کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

اگرچہ یہ عراق کا ایک داخلی مسئلہ شمار ہوتا ہے اور اس کو عراق کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے اشتعال انگیز اقدامات منجملہ علیحدگی پسندی اور ہمسایہ ممالک کو ایک نئے بحران سے دوچار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جب عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کے تسلط جیسے واقعات رونما ہوئے تو نہ صرف اس ملک میں بدامنی پھیلی بلکہ پورا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں آگیا اور عراق اور خطے کو سلامتی کی قیمت چکانا پڑی۔ عراقی کردستان میں ہونے والا ریفرینڈم عراق کے آئین کے بھی منافی ہے اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ بھی میل نہیں کھاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مسائل اور تشویشیں بھی ہیں جن کا تعلق عراق کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہے۔ عراق سے کردستان کی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم عراق کی مرکزی حکومت اور اس کے ہمسایوں کے ساتھ عراقی کردستان کے تعلقات پیچیدہ ہونے کا باعث بنے گا۔ اسی تاریخی حقیقت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عراقی کردستان کے علاقے میں ہونے والے ریفرینڈم کو خطے اور عراق میں بدامنی کا سبب قرار دیا ہے۔ البتہ اسرائیل نے اس ریفرینڈم کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراقی کردستان کی عراق سے علیحدگی جدید مشرق وسطی نامی سازش کا حصہ ہے جو کہ مکمل طور پر ایک صیہونی امریکی سازش ہے۔

جیساکہ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے واضح کیا ہے کہ خطے کی سیکورٹی اور عراق کی ارضی سالمیت نیز اس کا قومی اتحاد عراق کے ہمسایہ ممالک اور خطے کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور خطے کے استحکام کو خطرے سے دوچار کرنے والوں کو واضح پیغام دیا جانا چاہئے اور بلاشبہ علاقائی ممالک خطے میں ایک نیا بحران پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ٹیگس