Sep ۲۷, ۲۰۱۷ ۱۳:۴۹ Asia/Tehran
  • ایران ایٹمی معاہدے کی پابندی کر رہا ہے: جنرل ڈنفورڈ

امریکہ کے چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف (Chairman of the Joint Chiefs of Staff) جنرل جوزف ڈنفورڈ (Joseph Dunford) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کر رہا ہے۔

جنرل ڈنفورڈ نے امریکہ کی مسلح افواج کی کمیٹی کی ہیئرنگ کے دوران کہا کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا ہے۔ انہوں نے اس معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پر خارج ہوجانے کو دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدوں کےسلسلے میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہونے کا باعث قرار دیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے پر مبنی امریکی فوج کے اعلی ترین عہدیدار کی تصدیق امریکی افواج کے کمانڈر انچیف کے بیانات سے مکمل طور پر تضاد رکھتی ہے۔ امریکہ کے صدر اور اس ملک کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ایران پر مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ مستقبل قریب میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے یعنی مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں امریکی حکومت کے سرکاری موقف کا اعلان کریں گے۔

ان سے پہلے اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نیکی ہیلی نے امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کا جائزہ لینے سے متعلق نوے دن کی مدت  پوری ہونے کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا اعلان کریں گے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی نہیں کی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کانگریس کے پاس ساٹھ دنوں کی مہلت ہوگی کہ وہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق ان پابندیوں کو دوبارہ بحال کردے جو عارضی طور پر اٹھائی گئی ہیں اور اس اقدام سے مشترکہ جامع ایکشن  پلان ختم ہوجائے گا۔

ایک طرف امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مخالفین اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ممالک، عالمی ادارے، بااثر سیاسی گروہ اور شخصیات اس معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پر خارج ہونے کی روک تھام کے لئے کوشاں ہیں۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ اور دسیوں سیاستدان اور بین الاقوامی شخصیات حتی امریکی حکومت میں شامل بعض افراد بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان سے متعلق پالیسی کی نوعیت کے بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں مثلا امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے کو تیکنیکی پابندی سے تعبیر کیا ہے۔

جوزف ڈنفورڈ نے ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کو زیادہ مکمل صورت میں بیان کیا ہے۔ البتہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی جانب سے سات بار اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے اس لئے اس طرح کا موقف ناگزیر ہے۔ حتی امریکہ کے بعض ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہےکہ امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونٹی نے، کہ جو سولہ خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی اداروں پر مشتمل ہے، اعلان کیا ہےکہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ، فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر زور دے رہی ہیں جسے اس ملک کے صدر نے امریکی تاریخ کا بدترین اور شرمناک معاہدہ قرار دیا ہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے مشترکہ جامع ایکشن پلان کےمخالف اپنے بعض مشیروں کی مدد سے وزارت خارجہ، فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر غلبہ پانا اور مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہونے کا اعلان کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔ 

ٹیگس