Sep ۲۸, ۲۰۱۷ ۱۳:۳۶ Asia/Tehran
  • ایران، عراق اور ترکی کے فوجی حکام کی مشاورت

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے ایک بار پھر کہا ہے کہ عراق کی سرحدوں میں تبدیلی اور اس کے ایک حصے کا اس سے الگ ہونا قابل قبول نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران متحدہ عراق کو ہی تسلیم کرتا ہے۔

میجر جنرل محمد باقری نے بدھ کے دن اپنے عراقی ہم منصب جنرل عثمان الغانمی سے تہران میں ملاقات کے دوران کہا جس طرح عراقی وزیر اعظم نے واضح کیا ہے ایران اور عراق کی سرحدیں اسی طرح برقرار رہیں گی اور ایران عراق میں کسی پارٹی کے اقتدار اعلی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ عراقی کردستان کی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کے انعقاد سے کئی ماہ قبل ایران، عراق اور ترکی نے آپس میں مشاورت کی تھی اور اس ریفرینڈم کو عراق کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا تھا۔ اس ریفرینڈم کے بارے میں تینوں ممالک کی مشترکہ تشویش کی وجہ ان کی قومی سلامتی ہے۔ اسی تناظر میں ترکی کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف خلوصی آکار آئندہ چند دنوں تک تہران کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ایران، عراق اور ترکی کی مسلسل فوجی مشاورت سے عراق اور اس کے ہمسایہ ممالک میں امن کی برقراری کو اہمیت دیئے جانے  کا پتہ چلتا ہے۔

تہران، بغداد اور انقرہ کا مشترکہ ہدف عراق اور اس کی سرحدوں کے اندر پائیدار امن کا قیام ہے۔ شمالی عراق کے سرحدی علاقے پر عراق اور ترکی کی مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد، جنرل عثمان الغانمی کے دورۂ تہران اور آئندہ دنوں میں انجام پانے والے ترکی کے جنرل خلوصی آکار کے دورۂ تہران سے عراق میں قیام امن اور عراق کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کی سرحدوں پر امن کی برقراری کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اپنے ہمسایوں خصوصا عراق اور ترکی کے ساتھ  ایران کے فوجی تعاون سے مغربی ایشیا کے اسٹریٹیجک علاقے میں قیام امن کے سلسلے میں دفاعی سفارتکاری کے اہم کردار کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ممالک کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات ان کے باہمی سیاسی اختلافات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور خطے کی سیکورٹی کو لاحق ہر طرح کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ان ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ممالک بعض مسائل میں اختلاف رائے رکھنے کے باوجود آپس میں تعاون کرتے ہیں۔

عراق کے علاقے کردستان میں ریفرینڈم مسعود بارزانی کے نجی مفادات کو مدنظر رکھ کر منعقد کرایا گیا۔ اس سے متحدہ عراق کے دشمنوں کو اس ملک کی تقسیم کے ذریعے اس میں بدامنی جاری رکھنے کا موقع ہاتھ آیا۔ عراق اور اس کی شمالی سرحدوں پر بدامنی جاری رہنے سے ایران اور ترکی کی قومی سلامتی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھنے والا کوئی بھی قدم ایران، عراق اور ترکی کی ریڈ لائن شمار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ایران، عراق اور ترکی نے بارہا تاکید کی ہے کہ وہ بارزانی کے مدنظر ریفرینڈم کے مخالف ہیں اور اس کے نتائج کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

عراقی حکومت کے ترجمان سعد الحدیثی نے بدھ کے دن  عراقی کردستان کے علاقے کے اقدامات کے سلسلے میں بغداد، تہران اور انقرہ کی ہم آہنگی کےبارے میں کہا کہ تینوں ممالک ایسے اقدامات پر تاکید کرتے ہیں جن کی بنا پر کردستان کے علاقے کو عراق سے الگ نہ کیا جاسکے اور اس سلسلے میں مشاورت کا عمل جاری ہے اور بعض اقدامات کے بارے میں اتفاق رائے ہوگیا ہے۔

عراقی کردستان کے علاقے کی علیحدگی سے اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی کی قومی سلامتی پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کے  پیش نظر دونوں ممالک کا عراق کی مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر بعض اقدامات کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا ایک فطری امر ہے اور ایران، عراق اور ترکی کی فوجی مشاورتوں کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔

ٹیگس