Oct ۰۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۹ Asia/Tehran
  • امریکہ میں ہتھیاروں کی آزادی کا مسئلہ ایک بار پھر زندہ

امریکہ میں اسلحہ کنٹرول کا مسئلہ ایک بار پھر اس ملک میں سیاسی و قانونی جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ امریکہ برسوں سے اس مسئلے میں الجھا ہوا ہے لیکن اس سے چھٹکارا پانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہا ہے-

امریکہ میں اجتماعی قتل عام کے دیگر واقعات کی طرح لاس ویگاس کے واقعے نے ایک بار پھر امریکہ میں ہتھیار لے کر چلنے کے مسئلے کو دوبارہ زندہ کردیا ہے- اس قتل عام میں تقریبا ساٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں اس حادثے کو امریکہ میں عصرحاضر کا سب سے خونریز واقعہ قرار دیا گیا ہے، اسی سبب سے پورا ملک غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا ہے- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قتل عام کو محض شیطانی عمل قرار دیا ہے اور دیگر امریکی سیاستدانوں نے بھی مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے -

واضح رہے کہ امریکی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں میوزک کنسرٹ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ساٹھ کے قریب ہوگئی ہے جبکہ 500 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ حملہ آور اسٹیفن پیڈوک ارب پتی پراپرٹی تاجر نکلا ۔ پولیس حملہ آور کی ساتھی کی تلاش کررہی ہے، اب تک حملے کی وجوہات سامنے نہ آسکیں۔  تازہ رپورٹ کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ جبکہ امریکی حکام نے یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے کوئی شواہد نہیں ملے جبکہ ایف بی آئی کا بھی کہنا ہے کہ فی الحال ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس واقعے کا تعلق بین الاقوامی دہشت گردی سے نہیں ہے۔

داعش نے دعوی کیا ہے کہ اس حملے کا ذمہ دار شخص چند ماہ قبل داعش گروہ میں شامل ہوا تھا۔ یاد رہے کہ داعش نے مئی میں ایک ویڈیو پیغام میں لاس ویگاس میں حملے کی دھمکی دی تھی۔ سی بی ایس ٹی وی کے مطابق لاس ویگاس میں میوزک کنسرٹ پر حملے کا ذمہ دار ایک چونسٹھ سالہ جرائم پیشہ شخص اسٹیفن پیڈوک تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پیڈوک نے لاس ویگاس کے ایک ہوٹل کے کمرے میں کہ جس میں وہ ٹھہرا ہوا تھا، آٹھ سے دس آتشیں اسلحے چھپا رکھے تھے۔ لاس ویگاس پولیس کے کمانڈر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پیڈوک نے میوزک کنسرٹ پر فائرنگ کی اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں مارا گیا۔ لیکن بعض ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ پیڈوک نے میوزک کنسرٹ پر اندھا دھند فائرنگ کے بعد ہوٹل میں اپنے کمرے میں جا کر سیکورٹی اہلکاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی خودکشی کر لی۔امریکی پولیس نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اس نے دو حملہ آوروں میں سے ایک کو ہلاک کر دیا۔ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ہر سال فائرنگ کے واقعات میں تیس ہزار افراد مارے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت بہت گمبھیر ہو جاتا ہے کہ جب امریکہ میں نفسیاتی مریض اورعادی مجرم وغیرہ بغیر کسی وجہ اور دشمنی کے بےگناہ انسانوں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں کئی مرتبہ یونیورسٹیوں۔ اسکولوں، سنیما گھروں، شاپنگ مالز حتی فوجی اڈوں میں اندھا دھند فائرنگ کر کے بےگناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔   امریکہ میں کنزرویٹو دھڑا جس میں تقریبا تمام ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کا ایک گروپ شامل ہے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلحہ ساتھ لے کر چلنے پر زیادہ پابندیاں لگانا امریکی آئین کے آرٹیکل دو کے خلاف ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کے بارے میں اصول و قوانین کا جائزہ لینے کا اختیار کانگریس کو حاصل ہے نہ کہ امریکی صدر کو۔ 

بہرحال جس طرح سے اس سے قبل ہونے والے قتل عام کے واقعات اس بات کا باعث نہ بن سکے کہ بیشتر سیاستدانوں اور امریکی عوام کی اکثریت کو ہتھیار نہ رکھنے کی ترغیب دلاسکیں ، لاس ویگاس کا قتل عام بھی موجودہ صورتحال کو تبدیل نہیں کرسکتا ہے- اس بناء پر لاس ویگاس سے بھی بڑے اور ہولناک واقعے کے امریکہ میں رونما ہونے کا امکان موجودہے-    

ٹیگس