Nov ۰۹, ۲۰۱۷ ۱۹:۴۸ Asia/Tehran
  • مصر حزب اللہ مخالف اقدام کا ارادہ نہیں رکھتا، مصری صدر

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ عرب ممالک سے حزب اللہ لبنان کا بائیکاٹ کرنے کے سعودی عرب کے مطالبے کے باوجود مصر حزب اللہ مخالف اقدام کا ارادہ نہیں رکھتا۔ عبدالفتاح السیسی نے بارہا تاکید کی ہے کہ قاہرہ علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں ریاض کی پالیسیوں کے مطابق عمل نہیں کرے گا۔

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی ٹی وی چینل سی این بی سی  سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں شدید عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور یہ کہ علاقہ ایک نئی کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مصر کا ایک حلیف ملک شمار ہونے والا سعودی عرب چاہتا ہے  کہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح اور لبنانی حکومت سے اسے باہر کردیا جائے۔ سعودی عرب نے لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کے استعفیٰ دینے کے اقدام کے سلسلے میں بھی حزب اللہ کی پالیسیوں کو سعد حریری کے اس اقدام کی وجہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے گزشتہ ہفتے کے روز ریاض میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان اور ایرانو فوبیا اور استقامتی تنظیموں کے خلاف ماحول سازی  کے قالب میں سعودی عرب کے اشاروں اور سعودی حکام کی بتائی ہوئی پالیسیوں کے تحت کئے گئے اس اقدام کے دوران ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف الزامات عائد کئے تھے۔ سعودی عرب میں سعد حریری کا مستعفی ہونے کا اعلان اور ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف ان کے الزامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ لبنان کو سیاسی بحران سے دوچار کرنے اور اس کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے مقصد سے سعد حریری کے اس مشکوک اقدام میں آل سعود اور غاصب صیہونی حکومت کا رول رہا ہے۔

اسی وجہ سے مصر کے صدر نے عراق، شام، لیبیا اور یمن سمیت علاقے کے ممالک میں عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعودی عرب کے فتنہ انگیزی کے منصوبے کو، جو جنگ بھڑکا کر اور دہشت گردوں کی حمایت کرکے علاقے میں بدامنی پھیلا رہا ہے،  تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مصر کا رد عمل ثابت کرتا ہے کہ سعودی عرب لبنان میں اپنی فتنہ انگیزی پر مبنی پالیسیوں کے سلسلے میں اپنے حلیف ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہا ہے۔ لبنان سے متعلق مصر کا موقف علاقائی ممالک کے سلسلے میں سعودی عرب کی مداخلت پسندانہ اور غیر سنجیدہ پالیسیوں سے مصر کے مزید دوری اختیار کئے جانے کی علامت ہے۔

مصر نے کچھ دن پہلے بھی عراق اور شام کے تازہ حالات سے متعلق ان دونوں ممالک کے بارے میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کے سلسلے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی تھی اور یہ اقدام مصر اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا باعث بنا۔ مجموعی طور پر مصری اور لبنانی اقوام کے درمیان تعلقات ہمیشہ احترام اور محبت کی بنیاد پر استوار رہے ہیں اور لبنان علاقے میں صیہونی حکومت اور تکفیری دہشت گردوں سے مقابلے میں حزب اللہ جیسی اہم تنظیموں کے ذریعہ مصری حکام اور رائے عامہ کے نزدیک ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ عرب ممالک کی رائے عامہ حزب اللہ لبنان کو عرب دنیا کی سربلندی کی علامت سمجھتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر شام میں داعش دہشت گرد گروہ سے مقابلے میں حزب اللہ کی مدد نہ ہوتی تو آج سعودی عرب کے حمایت یافتہ داعش اور دیگر تکفیری  دہشت گرد گروہوں کا پرچم بعض عرب ممالک میں لہرا چکا ہوتا۔

قابل ذکر ہے کہ علاقے میں صیہونی حکومت کی شکست حزب اللہ لبنان اور فلسطینی استقامتی تنظیموں سمیت علاقے کی استقامتی تنظیموں کی جاں فشانی کے نتیجے میں ہوئی ہے اور حزب اللہ لبنان سمیت ان تنظیموں کے نہ ہونے کی صورت میں علاقے کو صیہونی حکومت کے غاصبانہ اقدامات کے نئے دور کا سامنا ہوگا۔ السیسی حکومت چھوٹے چھوٹے عرب ممالک کے برخلاف، جو سعودی عرب کے دباؤ میں ریاض کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہیں، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ علاقائی تغیرات میں کردار ادا کرنے کی قاہرہ کی طاقت میں اضافہ ہوسکے۔ ادھر قطر سمیت خلیج فارس کے عرب ممالک بھی ان ممالک میں شامل ہیں جو سعودی عرب کے ساتھ جبری تعاون کے لئے اب تیار نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں شر پسند آل سعود حکومت سے قطر اور مصر سمیت سعودی عرب کے حلیف ممالک کی مزید دوری اور علاقے میں اس حکومت کی مزید تنہائی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

ٹیگس