Nov ۲۰, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۳ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس ناکام، ایران اور حزب اللہ کے خلاف الزامات کی تکرار

عرب ملکوں کے وزرائے خارجہ نے سعودی عرب کی درخواست پر اتوار کے روز ایک ہنگامی اجلاس قاہرہ میں طلب کیا۔ یہ اجلاس، عرب ملکوں کے امن و سلامتی کو ختم کرنے کی ایران کی کوششوں کا جائزہ لینے کے عنوان سے منعقد کیا گیا تھا۔

عرب لیگ نے اپنے اختتامی بیان میں ، جو ریاض کا ڈکٹیٹ کیا ہوا تھا اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل " احمد ابوالغیظ " کی زبان سے پڑھ کر سنایا گیا، ایران پر علاقے میں مداخلت اور بدامنی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سعودیوں کے ہمیشہ کے بے بنیاد الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے ایک بارپھر اس بات کا دعوی کیا کہ وہ میزائل جو یمنی عوام اپنے دفاع میں سعودیوں پر داغ رہے ہیں وہ ایرانی میزائل ہیں۔ عادل الجبیرنے کہا کہ جو بیلسٹک میزائل ، ریاض پر داغے گئے ہیں یہ سعودی بادشاہ پر ایرانیوں کے مکرر حملوں کی علامت ہیں۔ الجبیر نے یہ بھی دعوی کیا کہ اب تک اسّی بیلسٹک میزائل جو ان کے بقول ایرانی ہیں، حوثیوں کے ذریعے ہم پر داغے گئے ہیں۔ 

ایران مخالف اقدامات اور بے بنیاد الزامات اور دعووں کے لئے، سعودی عرب کا عرب لیگ کو آلہ کار قراردینا اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب علاقے میں جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس سے قبل بھی خلیج فارس تعاون کونسل اور عرب لیگ کے توسط سے ایران کے خلاف منظم اقدامات انجام پا چکے ہیں۔ ایران کے خلاف سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیوں کا جائزہ ، ریاض کی مرکزیت میں ایران مخالف امریکی - اسرائیلی اتحاد کی پالیسیوں کے تناظر میں لیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ قاہرہ میں عرب لیگ کے ورزرائے خارجہ کا یہ ہنگامی اجلاس سعودی عرب کی اپیل پر تشکیل پایا تھا جس میں قطر، لبنان، عمان، متحدہ عرب امارات اور الجزائر کے وزرائے خارجہ نے شرکت بھی نہیں کی تاہم اس اجلاس کے اختتامی بیان میں جو سعودی عرب کے دباؤ اور اس کے ڈکٹیٹ سے تیار کیا گیا تھا، ایران اور حزب اللہ کے خلاف بے بنیاد، جھوٹے اور من گھڑت الزامات کی تکرار کی گئی ہے۔ 

معروف امریکی مفکر اور نظریہ پرداز، پروفیسر نوام چامسکی نے تحقیقاتی مرکز ٹام ڈسپیچ کے ساتھ گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے غیر ملکی دورے یعنی سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ، مشرق وسطی کی پالیسیوں پر اس کے پڑنے والے اثرات اور ایران کے تعلق سے ریاض کے رویوں کے بارے میں کہا کہ " سعودی عرب وہ جگہ ہے کہ ٹرمپ گویا یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ گھر میں ہیں، جبکہ وہاں ایک وحشی اور سختی سے سرکچلنے والا ڈکٹیٹر موجود ہے اور یہ ملک سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ہے جس کے پاس پٹروڈالر کی بھاری رقم ہے، ٹرمپ کے اس دورہ سعودی عرب میں ہتھیاروں کی فروخت کے بڑے معاہدے ہوئے اور سعودی عرب کی جانب سے ٹرمپ کو گرانبہا تحفے دیئے گئے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ٹرمپ کے سعودی دوستوں نے یمن کے خلاف اپنے جارحانہ حملے تیز کردیئے اور قطر کے خلاف بھی دشمنانہ اقدامات کئے۔

واضح سی بات ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد بن سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اس پر، علاقے پر تسلط کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس وقت اس کی یہ پالیسی یمن، شام ، عراق اور لبنان میں پے درپے شکست و ناکامی سے دوچار ہے- سعودی عرب اسی سبب سے اس کوشش میں ہے کہ علاقائی بحران کو ہوا دے کر اپنے اہداف کو آگے بڑھائے۔ چنانچہ قاہرہ اجلاس کے موقع پر سعد حریری کا ماجرا اور ان کا مشکوک طور پر ریاض میں استعفی دیا جانا بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔ اسی طرح یہ اجلاس لبنان میں ایران کی مداخلت اور حزب اللہ کے خلاف بے بنیاد دعووں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا  

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ لبنانی حکومت اورعوام نے حزب اللہ کو دہشت گرد قراردینے کے عرب لیگ کے بیان کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔عرب لیگ میں  لبنانی حکومت کے نمائندے انطوان عزام کا کہنا ہے کہ حزب اللہ لبنان ، لبنانی قوم کی نمائندہ تنظیم ہے جس نے خطے سے دہشت گردی کے خاتمہ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔  لبنانی نمائندے نے کہا کہ لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے نمائندے موجود ہیں،  حزب اللہ پر دہشت گردی کے الزام کو ہم سختی سے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ بے بنیاد اور جھوٹا الزام امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر لگایا جارہا ہے ۔ 

شام ، لبنان اور یمن میں سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیوں کے جاری رہنے اور ایران پر علاقے میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگانے سے یہ بات آشکارہ ہوجاتی ہے کہ سعودی عرب علاقے میں اپنی احمقانہ جنگوں اور جنون آمیز مداخلتوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہاہے۔

 

      

ٹیگس