Nov ۲۵, ۲۰۱۷ ۱۹:۰۰ Asia/Tehran
  • افغانستان میں ناکامی کا امریکی اعتراف

افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے اس ملک میں واشنگٹن کی شکست کا اعتراف کیا ہے۔

جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں اس ملک کی فوجی پالیسیاں بے نتیجہ رہی ہیں۔ امریکی سینٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین ، سینیٹر جان مک کین نے بھی اس سے قبل اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس ملک کی افغانستان میں کوئی اسٹریٹیجی نہیں ہے، اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن اس ملک میں شکست کھا رہا ہے۔ سن دو ہزار ایک میں امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے دہشت گردی سے مقابلے اور افغانستان سے القاعدہ کا صفایا کرنے کے بہانے سے اس ملک پر حملہ کیا تھا اور اس پر قبضہ کرلیا تھا ، اسی وقت یہ بات پورے طور پر واضح ہوگئی تھی کہ امریکہ ذلت آمیز شکست کھاکر افغانستان ترک کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس وقت کہ جب امریکہ میں ریپبلکن حکومت برسر اقتدار ہے، افغانستان میں وہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسے شکست خوردہ قرار دے رہی ہے کہ جن کی وجوہات کا جائزہ ان نکات میں لیا جا سکتا ہے

اول تو یہ کہ امریکہ نے دہشت گردی سے مقابلےکے لئے افغانستان پر قبضہ نہیں کیا تھا ، کیونکہ دہشت گردی مختلف علاقوں میں فوج کی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لئے امریکی فوجی بازو ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں صرف بحران کو ہوا دی ہے-  

دوم یہ کہ امریکہ افغانستان کو اپنے فوجی اڈے میں تبدیل کرنے کے درپے ہے اور افغانستان کی حکومت کے ساتھ امریکہ کے سیکورٹی معاہدے نے، اس ملک میں واشنگٹن کے لئے فوجی اڈے باقی رکھنے کا راستہ فراہم کیا ہے - نائن الیون کے واقعے نے درحقیقت امریکہ کے لئے یہ مناسب موقع فراہم کردیا کہ تاکہ وہ اپنی جارحانہ پالیسیوں کے نئے دور کا آغاز افغانستان پر قبضے سے کرے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے فوجی بازو کی حیثیت سے نیٹو کو بلاکرعملی طور پر اس ملک کو اپنی ایک کمزور ریاست میں تبدیل کردیا ہے کہ جسے وہ اپنے ہتیھاروں کے تجربات کے لئے، تختۂ مشق بنا رہا ہے۔

تاجیکستان میں سیاسی اور سیکورٹی مسائل کے ماہر صولت شاہ میرگن کہتے ہیں۔

امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرکے نہ صرف یہ کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں کیا ہے بلکہ اس ملک میں دہشت گردی کو مختلف شکلوں میں فروغ حاصل ہوا ہے یہ خود مغربی ممالک ہیں کہ جنہوں نے اپنے آلہ کاروں اور ایجنٹوں کے توسط سے دہشت گردی کو وجود دیا ہے اوراس کو ہوا دے رہے ہیں۔ امریکہ افغانستان اور وسطی ایشیاء میں اپنی موجود گی کے ساتھ ہی، علاقے میں مختلف سیاسی ، فوجی اور سیکورٹی پروگراموں اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے۔

روسی ماہرین ، منجملہ ڈموکریسی اور انسانی حقوق کے امور میں اس ملک کی وزارت خارجہ کے کمشنر نے بھی بارہا اعلان کیا ہے کہ ماسکو کے پاس ایسے ثبوت و شواہد موجود ہیں جن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی فوجیوں نے عراق و افغانستان میں فوجی آپریشن کے دوران متعدد بار انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکی اور نیٹو فوجیوں کے ہاتھوں عام شہریوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کا قتل عام ، منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں بے تحاشا اضافہ، تشدد میں اضافہ نیز مذہبی مقدسات اور قومی و اسلامی ثقاقت کی توہین ، افغانستان میں انجام پانے والے جرائم کا ایک حصہ ہے کہ جس نے بہت پہلے ہی افغانستان میں امریکی شکست کو واضح کردیا تھا۔ کیوں کہ افغان عوام نے برطانیہ اور سوویت ریڈ آرمی کو شکست دینے کے ساتھ ہی عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ وہ کبھی بھی نہ تو کسی طاقت کے سامنے جھکے ہیں اور نہ ہی جھکیں گے۔

ٹیگس