Nov ۲۵, ۲۰۱۷ ۱۹:۰۱ Asia/Tehran
  • کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہونے والے سعودی ولیعہد کے خواب

سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کا نام ان دنوں میڈیا میں خوب دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ انھیں ایسے مہم جو اور شہرت پسند شہزادے کا نام دے رہے ہیں جو مغربی میڈیا خاص طور پر امریکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دینے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

اس شہزادے کے انٹرویو غالبا بلند پروازی کے خوابوں اور اس کی احمقانہ پالیسیوں کی توجیہہ کا آئینہ دار ہیں کہ جس نے علاقے کوجنگ اور ویرانی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اس نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویومیں ، ایران کے اعلی حکام کے خلاف انتہائی گھٹیا بیان دیا ہے، جس پر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔  بہرام قاسمی نے محمد بن سلمان کے حالیہ بیان کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے آمر ولیعہد محمد بن سلمان کو اپنے پیشرو ڈکٹیٹروں کی زندگیوں کا غور سےمطالعہ کرنا چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سعودی عرب بالخصوص محمد بن سلمان کی علاقائی ممالک میں مداخلت  نے، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو بھی عالمی سطح پر رسوا کردیا ہے جس کی اہم مثال سعودی عرب میں لبنانی وزیر اعظم کا حالیہ جبری استعفی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سعودی عرب کے ولیعہد کو اپنے پیشرو ڈکٹیٹروں کی زندگی کا غور سے مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنی اوقات سے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

سعودی عرب نے ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے پہلے اس بات کا دعوی کیا کہ چار نومبر کو یمنی فوج نے سعودی عرب کے شاہ خالد ایئرپورٹ پر جو میزائل داغا، وہ ایران کا بنایا ہوا تھا اور اسے جنگی اقدام کا مصداق قرار دیا۔ پھر اس نے عرب لیگ کا نمائشی، ہنگامی اجلاس طلب کیا - سعودی عرب کے حکام نے کچھ دنوں کے بعد یہ کوشش کی کہ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کو استعفے پر مجبور کرکے، ایران اور حزب اللہ کے خلاف دباؤ بڑھا دیں۔ یہ اقدامات ریاض کی نئی جنگ پسندانہ خارجہ پالیسی کا انعکاس ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کے لئے بن سلمان کا نیا نقشہ اور منصوبہ کیا ہے؟ اس کے دماغ میں بظاہر بہت سے فتور اور توہمات ہیں اور ایران کو نقصان پہنچانا بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ 

سعودی ولیعہد ایسے میں ایران کے خلاف زہر اگل رہے ہیں کہ انہیں سعودی خاندان میں اپنے حریف شہزادوں کے اقتدار کی جنگ اور شدید داخلی مسائل کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں رسوائی بھی، اس  ملک کے داخلی مسائل سے کم نہیں ہے۔ اس نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے تمام آپشنز فعال کر رکھے ہیں۔ جرمن جریدے اشپیگل نے حال ہی میں اپنی رپورٹ میں ایران کے خلاف سعودی عرب اور اسرائیل کے تعاون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے وقت سے اس غاصب حکومت کے حکام کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عرب ملکوں کے مسائل میں شریک رہیں۔ درحقیقت یہ سعودی عرب ہے جس نے اپنے اقدامات کے ذریعے اس طرح کے حالات فراہم کئےہیں- 

امریکی اخبار تھامس فریڈمین نے بھی حال ہی میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ گفتگو کے بعد ایک رپورٹ میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ بن سلمان کا مجموعی نقطہ نگاہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی ممالک  ٹرمپ حکومت کی حمایت کرکے، ایران سے مقابلے کے لئے ایک اتحاد تشکیل دینے میں سرگرم ہیں۔ فریڈمین نے سعودی ولیعہد کے اس نقطہ نگاہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے، سعودی عرب اور اس کے روایتی اتحادیوں کے تعلقات میں پائی جانے والی سردمہری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہی دشمنانہ اور آمرانہ اقدامات ہی اب تک متحدہ محاذ کی تشکیل میں مانع بنی ہوئے ہیں۔ 

لیکن برطانوی جریدے اینڈیپنڈینٹ کے نامہ نگار اور تجزیہ نگار "رابرٹ فیسک" ، بن سلمان کے غیر حقیقی اور شرمندہ تعبیر نہ ہونے والے خوابوں کا ایک اور زاویئے سے جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ مشرق وسطی جس میں آج ہم زندگی گذار رہے ہیں چالیس سال قبل والے مشرق وسطی سے بہت زیادہ  مختلف ہوچکاہے کہ جس میں ہم رپورٹ تیار کرنے کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس وقت امریکیوں کی واقعی اپنی ایک پالیسی ہوا کرتی تھی گرچہ وہ توہمات پر مبنی پالیسی ہوتی تھی لیکن اس وقت زوال پذیر سوویت یونین بھی طاقت کے توازن کے لئے اس پالیسی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ رابرٹ فیسک نے مزید لکھا ہے: اب یہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو داعش کی شکست کا اعلان کر رہا ہے جبکہ پہلے امریکی صدر جارج بش تھے، جو اعلان کرتے تھے کہ اب مشن مکمل ہوگیا ہے۔ 

ٹیگس