Nov ۲۶, ۲۰۱۷ ۱۹:۰۴ Asia/Tehran
  • مزاحمتی محاذ، عوامی رضاکار فورس بسیج کا مثالی نمونہ

دہشت گرد گروہ داعش کا علاقے سے مکمل خاتمہ عنقریب ہے۔ دہشت گرد گروہ اس وقت گوشہ نشیں ہوگئے ہیں ، دہشت گردوں کے حامی مغربی اتحاد کو اپنی ناکامیوں پر جھٹکا لگا ہے، اور وہ مضمحل ہے۔

عرب کی رجعت پسند حکومتیں بھی اس کوشش میں ہیں کہ علاقے میں ایک اور جنگ چھیڑ کر نئے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانےکے لئے حالات سازگار بنائیں-  اس درمیان داعش کے مقابلے میں، اور اس سے قبل حاصل ہونے والی شکستوں نیز آل سعود کی جارحیتوں کے مقابلے میں مزاحمتی گروہوں کی مزاحمت کے تجربے نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ صرف وہی فوج اور طاقت دشمنوں کی سازش کا مقابلہ کرسکتی ہے جو عوامی مزاحمتی اہلکاروں پر مشمتل ہے۔ اور وہ ایران کی بسیج مستضعفین یعنی عوامی رضاکاروں پر مشتمل ایک آئیڈیل فورس ہے۔

اس سے قبل بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) نے اس مسئلے پر تاکید کی تھی کہ بسیج یا عوامی رضا کار فورس علاقے کے لئے مثالی نمونہ قرار پاسکتی ہے۔ اب اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تقریبا چالیس سال کے بعد اس طاقتور فورس نے مشرق وسطی میں دشمن کی شطرنجی چالوں کو ناکام بنا دیا ہے اور مغربی ایشیا میں واشنگٹن کی طاقت کے زوال کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ، شام میں دفاع وطن، عراق میں حشد الشعبی، یمن میں انصاراللہ اور بہت سے دیگر عوامی رضاکار گروہوں نے بسیج مستضعفین کو آئیڈیل بناکر، اغیار کے تسلط کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اور وہ مزاحمتی محاذ تشکیل دے کر دہشت گردی کے مقابلے میں مستحکم دیوار بن گئے ہیں۔ 

تقریبا دو عشرے سے مغربی ممالک عرب کی رجعت پسند حکومتوں کی مدد سے اس کوشش میں  ہیں کہ علاقے میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے، انہیں عرب قوموں کا حقیقی نمائندہ قرار دیں۔ وہ اپنی اس روش سے دو ہدف کے حصول کے درپے ہیں۔ پہلا ہدف اسلامو فوبیا اور مسلم اقوام کو دہشت گرد اور تشدد پسند ظاہر کرنا ہے اور دوسرا ہدف علاقے کے نظم و نسق کو درھم برھم کرنا اور فوجی مداخلتوں کے لئے زمین ہموار کرنا ہے جیسا کہ ان دنوں علاقے کے ملکوں میں سے ہر ملک کو کم و بیش، داخلی یا بیرونی جنگوں کا سامنا ہے۔ 

اس ہتھکنڈے کے مقابلے میں مزاحمتی گروہ ، علاقے کے امن اور نظم و نسق کو درھم برھم کرنے والے دہشت گردوں اور مغربی ایجنٹوں کی پیشرفت میں نہ صرف یہ کہ رکاوٹ بنے ہیں بلکہ انہوں نے ایک طاقتور فوج کی صورت میں غیر ملکی حکومتوں کی جارحیتوں کا راستہ روک دیا ہے اور وہ عوام کی حقیقی خواہش اور مطالبے کی تکمیل کے درپے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان دنوں مغرب اور اس کے اتحادی ممالک اس کوشش میں ہیں کہ رضاکار فورسیز پر ، جو ترقی و توسیع کے میدان میں انقلابی اقدامات انجام دے رہی ہیں، دباؤ ڈالیں۔ 

حزب اللہ لبنان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ، یمن کی تحریک انصاراللہ کے خلاف آل سعود کے فوجی حملے، عراق کی حشد الشعبی کو کمزور کرنے کے لئے سفارتی دباؤ، شام کی دفاع وطن کے مقابلے میں سیاسی محاذ کی تشکیل ، یہ سب کچھ  علاقے میں صیہونی مشن کے مقابلے میں رضاکار فورس بسیج کی استقامت کے باعث ، مغربی اورعرب ملکوں میں پیدا ہونے والے خوف وہراس کے مصادیق ہیں۔ 

تہران نے بارہا کہا ہے کہ وہ علاقے کے ملکوں میں مداخلت نہیں کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی انقلاب کی روش و منطق کو بروئے کار لاکر عالم اسلام میں روزافزوں مقبولیت حاصل کی ہے جبکہ عرب کی رجعت پسند حکومتوں کو، جو پٹرو ڈالروں سے دہشت گردوں کو وجود میں لا رہی ہیں، ذلت و خواری کا سامنا ہے۔ بلاشبہ انقلابی اقدامات کی پیشرفت کے عوامل میں سے ایک ، بسیج مستضعفین یا عوامی رضاکار فورس ہے کہ جس کی برکتیں، ان دنوں یعنی اس کے قیام کی سالگرہ کے دنوں میں ماضی سے زیادہ ظہور پذیر ہوئی ہیں۔        

ٹیگس