امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کی علامات
امریکی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہندوستان کے شہر ممبئ کے دہشت گردانہ حملوں کے ملزم حافظ سعید کو قانون کے مطابق گرفتار نہ کیا گیا تو دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں 2008 کے ممبئی حملے کے ملزم پاکستان کی جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کو آزاد کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے ، خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے حافظ سعید کو گرفتارکرنے اور اس پر مقدمہ چلانے سے انکار کیا تو واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان سے تعمیری تعلقات چاہتے ہیں لیکن یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان خطے کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ حافظ سعید کے تعلق سے پاکستان کا حالیہ فیصلہ ، دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعید کو لاہور ہائی کورٹ سے نظر بندی کی حکومتی درخواست مسترد ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی عدالت کے اس فیصلے پر ہندوستان اور امریکہ نے احتجاج کیا ہے۔
اس وقت واشنگٹن ، نئی دہلی کے موقف کی حمایت کرکے کہ جسے وہ " دہشت گردی کے خلاف مزید تعاون" کا نام دے رہا ہے ، اسلام آباد کو مجبور کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد کے دہشت گردی مخالف رویے پر واشنگٹن کی ناراضگی اور جھنجلاہٹ، در حقیقت حافظ سعید کے مسئلے سے بڑھ کر ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران امریکہ کی موجودہ حکومت نے بارہا پاکستان کی حکومت پر دہشت گرد گروہوں سے مقابلے میں تساہلی برتنے کا الزام لگایا ہے مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے سلسلے میں امریکی حکومت کی نئی اسٹریٹیجی کے اعلان کے ساتھ ہی صراحتا کہا تھا کہ اب امریکہ پاکستان میں طالبان جیسے گروہوں کی موجودگی پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ ٹرمپ نے اسی طرح اعلان کیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو پاکستان سے مدد مل رہی ہے- ان ہی خیالات کے اظہار کے بعد امریکی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان دہشت گرد گروہوں سے مقابلے میں مختلف رویہ اپنائے گا اور افغانستان میں امن کے قیام کا عمل بہتر ہونے میں مدد نہیں کرے گا تو اسلام آباد کے لئے واشنگٹن کی فوجی مدد بند کر دی جائے گی۔ یہ وہ اقدام تھا جس پر پاکستانی حکام نے اپنی شدید برہمی اظہار کیا ہے۔
برطانوی اخبار فائنینشیل ٹائمز نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں لکھاتھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا اتحادی کا درجہ ختم کرنے سمیت اس کے خلاف دیگر سخت اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ امریکا کا الزام ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر 20 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جن کے خلاف موثر کارروائی کی ضرورت ہے۔
اخبار کے مطابق امریکا کی نئی افپاک پالیسی سے واقف ذرائع نے بتایا کہ ٹرمپ حکومت پہلے ہی پاکستان کی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد روک چکی ہے اور اب دیگر اقدامات پر غور کررہی ہے جن میں سویلین امداد میں کٹوتی، پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر اس پر یکطرفہ طور پر ڈرون حملے اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے بعض افسران پر سفری پابندیاں عائد کرنے جیسے سخت اقدامات شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت پاکستان کا غیرنیٹو اتحادی کا درجہ ختم اور اسے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک بھی قرار دے سکتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو نہ صرف ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے، بلکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اربوں ڈالر کے قرضے لینے اور عالمی مالیاتی مراکز تک رسائی میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
ٹرمپ حکومت اپنی نئی اسٹریٹیجی پیش کرنے کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ افغانستان میں داعش دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے بہانے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ کریں۔ امریکی فوج نے ایک نمائشی اقدام میں چند ماہ قبل افغانستان میں اپنا سب سے طاقتور غیر ایٹمی بم کا دھماکہ کیا تاکہ عالمی برادری کے لئے ایک پیغام ہو۔ ایسا خیال کیا جا رہا کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دورہ صدارت کے اواخر میں افغانستان کے مسئلے سے امریکی حکومت کی توجہات میں کمی آنے کے بعد سے، ٹرمپ حکومت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں کے میدان میں ماضی سے زیادہ کردار ادا کرے اور یہ مسئلہ امریکی حکام سے پاکستانی حکام کے ٹکراؤ اور ان کی مزید ناراضگی کا باعث بنے گا ۔ ساتھ ہی یہ کہ ٹرمپ نے چین کے ساتھ سیاسی اور فوجی اسٹریٹیجک رویہ اپنانے کے ساتھ ہی ہندوستان کے ساتھ قربت کا راستہ اختیار کیا ہے کہ جو پاکستان کے لئے تشویش کا باعث بنا ہے۔
ان تمام مسائل نے، واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات کو متاثر کیا ہے ۔ اور اگر اسلام آباد ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے ملزم حافظ سعید کی گرفتاری سے اجتناب کرتا ہے اور واشنگٹن کی دھمکی کو نظر انداز کرتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔