ریاض میں دہشت گردی مخالف نام نہاد اتحاد کا اجلاس
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اتوار کے روز دہشت گردی مخالف نام نہاد سعودی اتحاد کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کی کونسل کا اجلاس ایسی حالت میں منعقد ہوا ہے کہ دہشت گردی کی فکری جڑیں وہابی افکار میں پیوست ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے مذکورہ اجلاس کی افتتاحیہ تقریر میں کہا کہ اس وقت 40 سے زیادہ ممالک نے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے جس کے خلاف عالمی عزم و ارادے کی ضرورت ہے لہذا سعودی عرب کم سے کم موجودہ حالات میں دہشت گردی سے مقابلے کا علم بردار نہیں ہو سکتا بلکہ وہ دہشت گردی سے مقابلے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا۔ اگر مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی حالیہ برسوں کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے دہشت گردی سے مقابلے کا دعویٰ سیاسی ڈرامہ بازی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
سعودی عرب شام میں گزشتہ 7 سال کے دوران دہشت گرد گروہوں کا سب سے بڑا حامی و مددگار رہا ہے۔ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی مستعفی حکومت کی مدد کے لئے دہشت گردوں کو استعمال کر رہا ہے اور عراقی حکام نے بارہا کہا ہے کہ سعودی عرب عراق میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں اور دہشت گردی کا دفاع کرتا ہے۔ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی فکری جڑیں بھی سعودی عرب میں وہابی اور تکفیری افکار میں پیوست ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکی اخبار ”واشنگٹن ٹائمز“ کے کالم نویس ” کال تھامس“ نے ابھی کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ ”دہشت گردوں سے مقابلے میں سعودی عرب پر اعتماد کرنا ایسا ہی ہے جیسے نسل پرستی سے مقابلے کے لئے” کُو کِلکس کلان“ (Ku Klux Klan) نامی گروہ کے ساتھ اتحاد بنالیا جائے۔ سعودی عرب نے برسوں پہلے ایک شیطان کو جنم دیا اور اب خود کو اس سے مقابلے کا پابند سمجھتا ہے۔ دہشت گردوں کی جائے پناہ دہشت گردوں سے مقابلے کے مرکز میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔“
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سعودی حکومت نے 14 دسمبر سنہ 2015ع کو ریاض کی سربراہی میں دہشت گرد مخالف نام نہاد اسلامی اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا تھا اور اب اس نام نہاد اتحاد کی تشکیل کو تقریباً دوسال ہو رہے ہیں لیکن اب جبکہ مشرق وسطیٰ میں داعش سمیت دہشت گرد گروہ اپنی نابودی کا عمل پورا کر رہے ہیں سعودی سربراہی والے نام نہاد اتحاد نے گزشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے جبکہ اسلامی جمہوریۂ ایران، شام، عراق اور حزب اللہ لبنان نے دہشت گردی سے مقابلے میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں سب سے بڑی کامیابی عراق اور شام سے داعش گروہ کا مکمل صفایا ہے۔
جوچیز ثابت کرتی ہے کہ سعودی سربراہی والا نام نہاد اسلامی اتحاد رائے عامہ کے لئے صرف ایک نمائشی، تشہیراتی اور ساتھ ساتھ غیر مؤثر ہے یہ ہے کہ اس اتحاد میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی سربراہی والا استقامتی محاذ شامل نہیں ہے۔ یہی چیز اس بات کی غماز ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کو استقامتی محاذ سے مقابلے کے ہدف کے ساتھ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
درحقیقت، یہ کہنا چاہئے کہ سعودی عرب اپنی علاقائی پالیسی میں اتحاد وغیرہ کی اسٹریٹیجی سے استفادہ کر رہا ہے تاکہ عرب ممالک کی شرکت سے اتحادوں اور اجلاسوں کے ذریعہ خطے میں ہونے والی اپنی حالیہ ناکامیوں اور شکستوں پر پردہ ڈال سکے۔