Nov ۲۹, ۲۰۱۷ ۱۷:۵۷ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکہ کے تکراری دعوے اور یورپ سے غیر منطقی مطالبہ

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے ایران کے خلاف بے بنیاد دعوے کرکے یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے مقابلے میں امریکہ سے ملحق ہوجائے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے منگل کو، " امریکی- یورپی تعلقات کے بارے میں ویلسن انسٹی ٹیوٹ " میں تقریر کرتے ہوئے ایران کے تخریبی رویوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی شام اور عراق کے میدانوں میں مسلح عناصر اور دہشت گردی کی حمایت اور بیلسٹیک میزائل کے فعال پروگرام نیز خلیج فارس میں ایران کی بالادستی اور تسلط حاصل کرنے کی کوششوں کے باعث ایران کا ساتھ نہیں دے گا۔

اس نے اپنے بیان میں صراحتا ترکی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایران سے دوری اختیار کرلے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن کو شام کے بحران کے حوالے سے ایران، روس اور ترکی کے حالیہ مذاکرات اور سمجھوتے سے تشویش لاحق ہے۔  ریکس ٹیلرسن نے اس سے قبل مئی کے مہینے میں امریکی سینٹ کےایک اجلاس میں کہا تھا کہ ایران کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے وہ ایران کے داخلی عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔

امریکہ کے ممتاز نظریہ پرداز اور امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے پروفیسر نے امریکی رویوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ علاقے کی ایک طاقت اور ایک خودمختار ملک کو برداشت کرے۔ چامسکی نے اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے خیال میں ایران کے تعلقات کے سلسلے میں امریکہ کو کس طرح کی پالیسی اپنانا چاہئے کہا تھا کہ امریکہ کو چاہئے کہ علاقے کے خودمختار ملکوں کو برداشت اور تحمل کرے اور ان کے ساتھ کسی طرح کا مسئلہ پیدا نہ کرے۔ 

چامسکی کا یہ بیان دو بنیادی نکتے پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ پلا نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکمراں اس وقت بھی اور ایسے دور میں بھی خیالوں کی سیر کر رہے ہیں اور وہ دنیا کو صرف اپنے ذہنی خیالات کے دریچے سے دیکھ رہے ہیں۔اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جان لینا چاہئے کہ اب دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کا دور ختم ہوگیا ہے اور ٹیلرسن کے بیانات یقینا اس امر کے عکاس نہیں ہیں کہ امریکہ جو کہے یا دوسرے ملکوں سے جو بھی مطالبہ کرے وہ حتمی اور قطعی ہے اور وہ ہوکر ہی رہے گا۔ یورپ ، چین اور روس سے امریکہ کے بے انتہا مطالبات، اور دوسروں کو امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں ڈکٹیٹ کرنا اس معنی میں ہے کہ امریکہ بدستور عالمی سطح پر تسلط جمانے کا درپے ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ایران مخالف دعوے ایسے میں کر رہے کہ جب امریکہ کی فوجی مداخلتوں نے علاقے کی صورتحال کو جنگ، آشوب اور تقسیم ہونے سے دوچار کردیا ہے- مغربی ایشیاء کی افسوسناک موجودہ صورتحال  کہ جو امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت سے دہشت گرد گروہوں کی جولانگاہ بن چکی ہے، اسی حقیقت کا ثبوت ہے- امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقہ تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے - امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پربارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے اور اس نے حقیقی دھمکیوں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے- 

بعض خبری اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات، علاقے کے بعض عرب ملکوں کی رول پلیئنگ سے استفادہ کرتے ہوئے ایران اور امریکہ کو مد مقابل لاکھڑا کرنے کی نئی کوششوں کے مترادف ہیں- کچھ دنوں قبل لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم نے ایک مضمون میں علاقے کے بعض عرب ملکوں کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے، ان پالیسیوں کو خلیج فارس کے ملکوں کے نئے ہتھکنڈے سے تعبیر کیا کہ جسے یہ ممالک ایران کے خطرے سے مقابلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں-

ٹیگس