Nov ۳۰, ۲۰۱۷ ۱۷:۰۰ Asia/Tehran
  • شام میں چینی فوج کی موجودگی

چین کی حکومت، جنگ زدہ ملک شام کے صدر بشار اسد کی مدد کے لئے اپنے فوجی روانہ کر رہی ہے-

چین کی وزرات دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اس کے دو خصوصی فوجی یونٹس شام کی حکومت کی مدد کے لئے روانہ کئے جا رہے ہیں۔ چین نے دوہزار پندرہ میں، پانچ ہزار فوجیوں کی شام میں تعیناتی کا حکم صادر کیا تھا کہ جو مغربی لاذقیہ میں تعینات کئے گئے۔ چین کے فوجی مشیر بھی، شام میں بحریہ اور فضائیہ کی ہمراہی کے لئے موجود ہیں۔

واضح رہے کہ شام کا بحران دوہزار گیارہ میں امریکہ ، بعض یورپی ملکوں ، اور عرب ملکوں کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت کے ذریعے شروع کیا گیا تھا - یورپی یونین کے دو رکن ممالک کی حیثیت سے فرانس اور برطانیہ نے ، دوہزار گیارہ سے مغرب - عرب اتحاد تشکیل دے کر شام کی قانونی حکومت کو سرنگوں کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں انجام دیں اور اس کام کے لئے انہوں نے اپنی پوری توجہ، دہشت گردوں کی بھرپور حمایت کرنے پر مرکوز کردی تاکہ بزعم خود ان دہشت گرد گروہوں کے ذریعے اپنے ہدف کو پالیں، یعنی بشار اسد کی قانونی حکومت کو گرادیں لیکن آج شام سے دہشت گردوں خاص طور پر داعش کا صفایا ہونے کے ساتھ ہی، دہشت گردوں کے حامی ممالک بھی گوشہ نشیں ہوچکے ہیں۔

 مختلف علاقوں منجملہ شام میں فوجی موجودگی کے لئے چین کی آمادگی سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بیجنگ علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں میں موثر کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس امر کے پیش نظر کہ گذشتہ چند برسوں سے چین، داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ ایسے میں شام میں بھی چین کی فوجی موجودگی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بیجنگ کی حکومت، دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش کو اپنی قومی سلامتی کے لئے ٹھوس خطرہ سمجھتی ہے  اور شام کے بحران کے حل میں مدد، در حقیقت اس سلسلے میں چین کی حکومت کے لئے ایک ٹھوس آزمائش تھی-

روس کے فوجی ماہر "واسیلی کاشین" کہتے ہیں : چین کا اپنے دو خصوصی فوجی دستوں کو شام روانہ کرنے کا فیصلہ ، شام کی جنگ کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں اہم ہو سکتا ہے۔ چین ، شام کے لئے اپنی بھرپور فوجی مدد دے سکتا ہے کہ جو اس کے لئے کافی ہو۔ پہلے بھی چین نے شام کی سرکاری فورسیز کو نمایاں طورپر فوجی گاڑیوں، فوجی لباس اور سازوسامان کی صورت میں نمایاں مدد پہنچائی ہے لیکن بیجنگ کے تازہ فیصلے سے یہ واضح ہے کہ ان حمایتوں میں مزید وسعت آئے گی۔ شام کی فوج کو ان چیزوں کی ہتھیاروں سے کم ضرورت نہیں ہے۔

شام کا بحران اس بات کا باعث بنا ہے کہ چین نے سلامتی کونسل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی متعدد مجوزہ قراردادوں کو ویٹو کرکے مغربی ممالک پر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے فروغ اور اپنی قومی سلامتی کے خطرے کے تعلق سے، کسی بھی طرح کی مصالحت نہیں کرے گا ۔ چین یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہ ، تشدد اور بحران کو ہوا دینے کے لئے امریکی ہتھکنڈہ اور آلہ کار ہیں اور اسی سبب سے چین بھی اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ شام میں داعش کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے تاکہ اس کا دائرہ مزید نہ پھیل سکے۔ 

فوجی مسائل کے ماہر ایڈمیرل گوآن یوفی کہتے ہیں چین ، اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے والے ملک شام کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے- چین اور شام کے فوجی ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں- چینی فوجیوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ شام کی فوج کے ساتھ اپنے رابطے اور تعاون کو مستحکم کریں، تاکہ دہشت گردی کو شکست دیں۔ 

بہر صورت حال ہی میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی انیسیویں کانگریس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ ملک اپنی عالمی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں فعال کردار ادا کرے۔ اور چین کے صدر شی جین پینگ نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ چین اپنی دفاعی پوزیشن سے باہر نکلے اور خود کو اطراف کے ملکوں تک ہی محدود نہ رکھے۔ چنانچہ افریقی ملک جیبوٹی کے فوجی اڈے میں وسیع پیمانے پر چینی فوج کی موجودگی اور شام کے لئے مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ اسی تناظر میں قابل غور ہے۔

ٹیگس