Dec ۰۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۰۰ Asia/Tehran
  • تہران کے خلاف ریاض کے ساتھ تعاون میں لندن کی اسٹریٹیجک غلطی

مغربی ایشیاء کے علاقے میں ہتھیاروں کی تجارت اس امر کا باعث بنی ہے کہ بعض مغربی حکومتیں کہ جو پیٹرو ڈالروں کی حامل حکومتوں کے ساتھ ہتھیاروں کے معاملات میں بھاری فائدہ اٹھارہی ہیں، اس علاقے کی صورتحال کا صحیح تجزیہ کرنے کی قوت کھو بیٹھی ہیں۔

جیسا کہ سویڈن کے تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 2012 سے 2016 کے برسوں کے درمیان ہتھیاروں کی تجارت کی شرح 1990 کے بعد سے ہر پانچ سال کے بعد بڑھتی رہی ہے اور اس درمیان مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی درآمدات کی شرح گذشتہ پانچ برسوں میں تقریبا دوگنا ہوگئی ہے۔ اس وقت ہندوستان کے بعد سعودی عرب سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا ملک بن گیا ہے- سعودی عرب کے ہتھیاروں کی درآمدات کی شرح میں ان دنوں کہ جب امریکہ اور برطانیہ سے وہ زیادہ ہتھیار خرید رہا ہے، دوسو بارہ فیصد اضافہ ہوا ہے-

بلا شبہ یمن پر سعودی عرب کا فوجی حملہ اور شام و عراق میں تکفیری دہشت گردوں کی ریاض کی جانب سے حمایت اور لبنان اور بحرین میں آل سعود کے کشیدگی پھیلانے والے اقدامات، ہتھیاروں کی زیادہ سے زیادہ خریداری کی اہم ترین وجوہات میں سے ہیں۔ فطری امر ہے کہ وہ ملک جو ہتھیاروں کے انبار میں تبدیل ہوگیا ہے، اسے ان ذخیرہ شدہ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لئے علاقے میں جنگ چھیڑنے اور اسے بدامنی سے دوچار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک بار پھر تہران پر، ملکوں کے امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جس سے یہ بخوبی ثابت ہوجاتا ہے کہ سعودی حکومت کس طرح سے پروپیگنڈے اور تفرقہ انگیزی کے ذریعے اپنی جگہ ، تہران کو علاقے کی اصل مشکل ظاہر کرنے کے درپے ہے۔ 

ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض مغربی حکمراں بھی سعودیوں کے ہمنوا اور ہم صدا بن گئے ہیں اور ہتھیاروں کی تجارت کو رونق بخشنے کی غرض سے اس کوشش میں ہیں کہ ایران پر لفظی حملوں کے ذریعے، اپنے عرب خریداروں کو خوش رکھیں۔ یورپی حکام کے ایران مخالف تازہ ترین بیانات میں، اسی دن جس دن یورپی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کے ہتھیاروں کی برآمدات کو ممنوع قرار دیا، ریاض میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے ایران کے خلاف الزام تراشی کی اور مغربی ممالک سے ایران کے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا - تھریسا مے بجائے اس کے کہ سعودی عرب کے خلاف یورپی پارلمینٹ کے موقف کی حمایت کرتیں، انھوں نے یمن میں سعودی عرب کے جرائم پر آنکھیں بند کرلیں تاکہ کہیں برطانیہ کے ہتھیار بنانے والے کارخانوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ در ایں اثنا فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی ایران کے دفاعی پروگراموں کے خلاف اپنے مواقف کا اعادہ کیا ہے 

واضح رہے کہ برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں اراکین نے یورپی ملکوں کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی ملکوں کی جانب سے فروخت کئے جانے والے ہتھیاروں کو یمن میں جنگ کا دائرہ وسیع کرنے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے یمن میں انسانی صورت حال کو بحرانی قرار دیا اور خبردار کیا کہ یمن میں ایک کروڑ سے زائد بچوں کو فوری طور پر انسان دوستانہ امداد کی ضرورت ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں گرین پارٹی کے اراکین نے بھی اعلان کیا ہے کہ یورپی ملکوں کو یمن میں سعودی عرب کے جنگی جرائم کا شریک نہیں بننا چاہئے۔ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے ایسی حالت میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی، سعودی عرب کو سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک شمار ہوتے ہیں۔

واضح سی بات ہے کہ ایران کے خلاف بعض یورپی ملکوں کے مواقف کا، مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کی روح سے کوئی تعلق نہیں ہے البتہ ایران پر دباؤ جاری رکھنے کےاقدامات سے ممکن ہے تہران اور یورپ کے تعلقات کو، جو اس وقت فروغ پا رہے ہیں، نقصان پہنچے۔ اس نکتے کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے اس لئے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تہران پر دباؤ ڈالنے کے لئے، ریاض کا ساتھ دینے کی غرض سے یورپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان تمام حالات کے پیش نظر ایسا خیال کیا جا رہاہے کہ اگر یورپ علاقائی مسائل کے سلسلے میں اپنا مستقل موقف نہیں اپناتا تو علاقے کے مسائل میں اصلی شکست یورپ کو ہی ہوگی۔

ٹیگس