Dec ۰۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۴۲ Asia/Tehran
  • عالم اسلام کو ایران کا پیغام

علاقے کے حالات اب مزید کشیدگی کے متحمل نہیں ہیں اور یہ مغربی ایشیا کے علاقے کے تمام بازی گر جانتے ہیں اس کے باوجود ایسا نظر آتا ہے کہ علاقے کے باہر کے کھلاڑیوں کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں پھر کشیدگی پیدا کر دیں۔

مغربی ایشیا میں جنگ و جدل اور جھڑپوں کا سلسلہ اب بتدریج کم ہو رہا تھا یہاں تک کہ سعودی عرب بھی کہ جو یمن کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس ملک کے صدر سے گفتگو کا خیرمقدم کرکے آبرو مندانہ اور سفارتی طریقے سے موجودہ صورت حال سے باہر نکلنا چاہتا ہے- لبنان میں بحران کھڑا کرنے کے سلسلے میں بھی ریاض نے پسپائی اختیار کرلی اور سعد حریری کے مستعفی نہ ہونے سے عملی طور پر اس ملک کا بحران کنٹرول ہوگیا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال قطر کے وزیرخارجہ کا بیان ہے جس میں انھوں نے بعض علاقائی بحرانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اختلافات کو سفارتی طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے- 

تہران نے علاقے کے ممالک میں داخلی جنگیں زور پکڑنے سے پہلے ہی تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کرنے کی حمایت کرتا رہا ہے اور ایران سے الجھنے کے لئے آل سعود کے تمام اقدامات کے باوجود اس نکتے پر اصرار کرتا رہا ہے کہ اسلامی ممالک سفارتکاری ذریعے اپنے مسائل  حل کریں - یہ اسٹریٹیجی ، عالم اسلام میں اتحاد کے نظریے کے لئے سفارتکاری کی ترجمان ہے کہ جو اسلامی ممالک کے درمیان جنگ کے بجائے سفارتکاری اور علاقے سے باہرکے ممالک کو دوست بنانے اور جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے- گذشتہ روز ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ہفتہ وحدت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علاقے میں جنگ و جدل کو ختم کرنے پر تاکید کی - یہ ایک ایسا پیغام ہے کہ جو اگر علاقے کے بازیگر اچھی طرح سنیں تو علاقے میں انتہاپسند گروہوں کو کنٹرول کرنے کی طاقت ممکن ہے بڑھ جائے اورعلاقائی تعاون اور اسلامی ممالک کے ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہونے کی راہ ہموار ہوجائے- اس کے باوجود واضح ہے کہ یک قطبی عالمی نظام کے مغربی حامی نہیں چاہتے کہ عالمی مسائل میں کوئی دوسری طاقت کا عمل دخل ہو چاہے وہ روس ہو چین ہو یا عالم اسلام ۔ اس سلسلے میں بعض مغربی وظیفہ خواروں کے گلے سے تفرقہ اندازی کی صدائیں آتی ہیں- اس کی واضح مثال سعودی عرب کے ناتجربہ کار وزیرخارجہ عادل الجبیر ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ ایران کے خلاف الزام تراشی کے ذریعے علاقے میں استحکام بحال کیا جا سکتا ہے ؛ الجبیر جو کسی زمانے میں واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر تھے اور اسی بنا پر امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ کافی گہرے تعلقات  رکھتے تھے ، علاقے میں جنگ کرانے کا ٹھیکا لئے ہوئے ہیں اور علاقے میں تعاون اور عالم اسلام کے ایک موثر قطب میں تبدیل ہونے کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں-

اس طرح کے مہرے موجود ہونے کے باوجود عالم اسلام کے عوامی ڈھانچے نے جنگ سے تھک ہار کر گفتگو اور تعاون کے لئے ایران کے پیغام کو سنا ہے اور اس کی جانب کھینچتا چلا آیا ہے بنا برایں تمام علاقائی بازیگروں کے مفاد میں ہے کہ اپنی انتہاپسندانہ شبیہ ترک کر کے مسلم امہ کے اتحاد کی خواہشوں کی جانب قدم بڑھائیں اور اس طرح تکفیری نظریات اور دہشتگردی کی ٹریننگ دینے والوں کا دائرہ تنگ کردیں-

ٹیگس