Jan ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۰ Asia/Tehran
  • حزب اللہ سے خوف زدہ کرنے کا راز

ایران اور اس کے اتحادی گروہ علاقے میں امن و استحکام کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں- اس کی ایک مثال داعش ہے کہ اگر عراق میں حشدالشعبی جیسے رضاکار عوامی گروہ نہ ہوتے یا شام میں حزب اللہ کی موثر موجودگی نہ ہوتی تو کوئی بھی فوج دہشتگردی پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔

اس کے باوجود واضح ہے کہ استقامتی محاذ کے سامنے دھول چاٹنے پر مجبور ہونے والی قوتیں کہ جو داعش کو اقتدار تک پہنچانے اور ایک دہشتگردانہ خلافت کی تشکیل کا خواب دیکھ رہی تھیں ، موجودہ صورت حال سے ناخوش ہیں اور کوشش کررہی ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو ایک دہشتگرد گروہ ظاہر کرکے اس پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے ہتھیار رکھ دے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کوئی کردار ادا نہ کرے تاکہ یہ شکست خوردہ قوتیں علاقے کو بدامن کرنے کے لئے اپنےسیناریو کو عملی جامہ پہنا سکیں -

ریاض نے سعد حریری کے ساتھ مل کر جو بچگانہ کھیل کھیلا اس کی حقیقت سب پر عیاں ہوگئی کہ یہ کھیل کس قدر مصنوعی اور مضحکہ خیز تھا جس نے حزب اللہ کو خراب کرنے کے لئے ریاض کی ان کوششوں کو بے نقاب کر دیا جس کی سازش صیہونی حکومت کے تعاون سے تیار کی گئی تھی تاہم لبنانیوں کی ہوشیاری سے وہ نقش بر آب ثابت ہوئیں-

کوئی بھی غیرجانبدار مبصر حزب اللہ کوعلاقے میں بدامنی اورعدم استحکام کا عامل نہیں سمجھتا اور علاقے کے تمام ہمدرد کیرکٹرس مسلم امۃ کے اہداف کی حمایت و دفاع میں حزب اللہ لبنان کے مثبت کردار پر تاکید کررہے ہیں اور جانتے ہیں کہ حزب اللہ مذہبی فاصلے پیدا کرنے اور اختلاف پھیلانے کا عامل نہیں بلکہ مختلف مذاہب اور فرقوں کو ایک دوسرے سے نزدیک لانے کا اہم وسیلہ ہے لیکن اس کے باوجود شیعہ فوبیا اور ایرانوفوبیا کا سلسلہ جاری رکھنے والی تخریبی فکر، حزب اللہ فوبیا کے سیناریو کے ذریعے اس پر الزامات عائد کرنے کی کوشش کررہی ہے-

تل ابیب جانتا ہے کہ حزب اللہ کو کمزور کرنے کے لئے اس کے پروپیگنڈے اب دم توڑ چکے ہیں اور وہ اس عوامی گروہ سے کئی بار شکست کھا چکا ہے لہذا ایسے وقت میں جب تمام فلسطینی گروہ استقامتی محاذ کی جانب بڑھ رہے ہیں اس نے ریاض سے اپیل کی ہے کہ وہ حزب اللہ کو خراب کرنے کی سازش کی ذمہ داری کو آگے بڑھائے- شاید یہی وجہ ہے کہ فرانس کے وزیرخارجہ جان ایو لوڈریان نے اپنا دورہ تہران نزدیک آنے کے پیش نظر عبری و عربی لابی کے زیراثر آکر کہا ہے کہ وہ تہران کی جانب سے لبنانی مجاہدین اور یمنی انقلابیوں کی حمایت کا جائزہ لینے کے لئے ایران کے دورے پر جا رہے ہیں- فرانس کے وزیرخارجہ تقریبا چالیس دن بعد تہران کے دورے پر آنے والے ہیں اوران کے دورے کا مقصد ایران اور فرانس کے درمیان اعلی سطح کی سفارتی گفتگو کے مقدمات فراہم کرنا ہے -

امریکہ ، یورپ اور علاقے کی رجعت پسند حکومتیں بخوبی جانتی ہیں کہ ایرانوفوبیا کا سیناریو ، ایٹمی مسئلے میں تو شکست سے دوچار ہوہی چکا اور اب میزائلی پروگرام کے بارے میں بھی مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا ایک بار پھر علاقے کے عوامی گروہوں اور تنظیموں کو خراب کرنے کا مرحلہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور یہ کوشش کررہے ہیں کہ علاقے میں عدم استحکام کے مسئلے کی شکل تبدیل کر کے تہران کے حامی گروہوں کو اس بے سروسامانی اور بدامنی کا ذمہ دار قرار دیں-

جبکہ انسانی حقوق کے دعوے دار ممالک سے یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا یمن میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے ذمہ دار اس ملک کے عوامی گروہ ہیں یا سعودی فوج اور امریکی و برطانوی ہتھیار؟ کیا داعش کی تشکیل کا عامل ایران تھا یا علاقے میں مغرب کی اتحادی حکومتیں ؟ فلسطین کے حالیہ بحران کی جڑ، ٹرمپ کا اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ ہے یا استقامتی گروہ -

مغربی حکومتیں ، مغربی ایشیا میں بدامنی کے سلسلے میں اٹھنے والے سوالات کا اسی وقت مناسب جواب تلاش کر سکتی ہیں جب وہ ان مذکورہ بالا سوالات کا جواب دے دیں گی اگر ان کے پاس ان معقول اور منصفانہ سوالات کے جوابات ہیں تو مغربی ممالک کو علاقے کے استحکام میں عراقی ، لبنانی اور یمنی گروہوں کے کردار کی بابت تہران کا قدرداں ہونا چاہئے اور ان گروہوں کی حمایت کی بنا پر ایران پر تنقید نہیں کرنی چاہئے -

ٹیگس