Feb ۰۴, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۱ Asia/Tehran
  • پاکستان، طالبان کے بارے میں دی گئی معلومات کا جائزہ لے رہا ہے

افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے پاکستان کا اعلی سطحی وفد اپنے دورۂ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے بارے میں کابل کی جانب سے، سیکورٹی سے متعلق پیش کئے گئے ثبوت و شواہد کا جائزہ لے رہا ہے۔

 احمد شکیب مستغنی کے بقول افغانستان، اپنے پیش کئے گئے ثبوت و شواہد کے بارے میں پاکستانی فریق کی وضاحت کا خواہاں ہے۔ افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کیے جانے کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر دیے ہیں۔

حال ہی میں افغانستان کے وزیر داخلہ ویس احمد برمک اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ محمد معصوم ستانکزئی نے اپنے ایک روزہ دورہ اسلام آباد میں کہا کہ افغانستان نے بدھ کے روز ہونے والے ایک گھنٹے طویل اجلاس میں پاکستان کو سوالات کی فہرست تھما دی جس میں پاکستان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان کے رہنماؤں اور ان کی سرزمین میں چلنے والے ٹریننگ سینٹرز کے خلاف کیا اقدامات کر رہا ہے۔ 

افغانستان کا خیال ہے کہ پاکستان انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں حمایت کر رہا ہے۔ یہ ایسا موقف ہے کہ جس پر امریکہ بھی زور دیتا آ رہا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کرنا بند کردے۔ اگر چہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے تازہ ترین حملوں کے بارے میں افغان حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت و شواہد کے جائزے کی، پاکستان کی جانب سے موافقت کو دہشت گردوں کی شناخت اور ان سے مقابلے کے لئے اہم قدم سمجھا رہا ہے لیکن یہ تصور مشکل ہے کہ اسلام آباد کی حکومت دہشت گردوں خاص طور پر طالبان پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی۔

سیاسی مسائل کے ماہر انڈرس کوور Andres Covar کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی حمایت بند کرنے کی غرض سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے بااثر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کا حامی ملک قرار دیں اور اس ملک کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کریں، پاکستان ، افغانستان کو اپنے "بیک یارڈ“  میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہے اور اس ملک کی حکومت کو اپنے زیر اثر لانا چاہتا ہے۔ 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کی حکومت کے نقطہ نظر سے پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کے قومی اقتدار اعلی کا احترام کرے اور یہ تسلیم کرے کہ اس ملک کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ در ایں اثنا افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے 2014 میں دوستی کا ہاتھ پاکستان کی جانب بڑھایا تھا اور کہا تھا کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر گذرتا ہے۔ افغان صدر کی اس درخواست پر پاکستان کی بے توجہی اور واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ کشیدگی اس بات کا باعث بنی کہ ایک بار پھر افغانستان نے اپنے ملک کے دہشت گردانہ حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

افغانستان میں سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد سعیدی کہتے ہیں:

 دہشت گردی سے مقابلے کے لئے پاکستان کی نیک نیتی کےبارے میں افغان حکام شک و تردید رکھتے ہیں۔ حکومت کابل نے اسلام آباد سے جو درخواست کی ہے  وہ حقانیت اور افغانستان اور علاقے کے لئے ایک ضرورت ہے

بہر صورت پاکستان اور افغانستان کے وفود کے درمیان مشترکہ اجلاسوں کا انعقاد اور کابل کے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کا جائزہ لیا جانا اس امر کا غماز ہے کہ دونوں فریق اس سلسلے میں تعاون میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس تعاون کو مزید اعتماد کی بحالی کے ساتھ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا تعاون کہ جس کی افغانستان اور پاکستان کی رائےعامہ اور علاقے کے ملکوں کی جانب سے حمایت کی جارہی ہے۔      

ٹیگس