آل سعود اور عدم تحفظ کا ڈراؤنا خواب
میڈل ایسٹ آئی سمیت دیگر خبری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ آل سعود خاندان کے اندرونی اختلافات اور سعودی حکمرانوں کو ان اختلافات سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بچانا ہے۔
چند دنوں قبل پاکستان نے اعلان کیا کہ تازہ دم ایک ہزار فوجی سعودی عرب روانہ کیے جارہے ہیں، لیکن ان فوجیوں کی سعودی عرب میں سرگرمیوں کو خفیہ رکھا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے اس ملک کی سینٹ میں کہا ہے کہ اس وقت سولہ سو فوجی سعودی عرب میں تعینات ہیں، ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی فوج نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب روانہ کیے جانے والے فوجی صرف تربیتی اور مشاورتی مشن پر تعینات رہیں گے، اور صرف سعودی عرب کے اندر خدمات انجام دیں گے اور خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت میں جاری یمن جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
تین سال قبل بھی پاکستان نے یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں جاری فوجی مداخلت کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ اس درمیان رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ اف انگلینڈ کے رکن کمال علام نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران ایک اندرونی مسئلے کی وجہ سے ممکنہ طور پر تشویش میں مبتلا ہیں اور سعودی عہدیداروں میں کسی کو کسی پر اعتماد نہیں ہے اس لئے پاکستانی فوجیوں کی انہیں ضرورت ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب کے شاہی خاندان کی حفاظت پر تعینات کئے جائیں۔ انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل میں شاہ فیصل کے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے اور ان ہی روابط کے نتیجے میں پہلا پاکستانی فوجی دستہ سعودی عرب روانہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سن انیس سو بیاسی میں بھی شاہ فہد کی درخواست پر پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے بھی فوجی کمانڈوز کا ایک دستہ سعودی عرب بھیجا تھا اور کمانڈوز کا یہ دستہ شاہی خاندان کی حفاظت پر تعینات کیا گیا تھا، اور آج بھی پاکستانی فوجی سعودی عرب کے شاہی خاندان خاص طور پر اس ملک کے ولی عہد محمد بن سلمان کی حفاظت پر مامور خصوصی فورس کا حصہ ہیں۔
چند مہینے قبل بھی سعودی حکام خاص طور پر اس ملک کے ولی عہد محمد بن سلمان نے مالی بد عنوانیوں کے خلاف شاہی خاندان کے افراد اور اس ملک کے بڑے تاجروں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا تھا۔
غیر ملکی فورسز کی موجودگی کے ساتھ نئے حفاظتی یونٹ کی تشکیل کے لئے محمد بن سلمان کے اقدامات، شاہی خاندان کی حفاظت پر مامور اس ملک کی سیکورٹی فورسز پر اس وقت کے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے خاندان کے عدم اعتماد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
آل سعود کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور اقتدار پر مکمل قبضے کے لئے سعودی بادشاہ کے اقدامات کے نتیجے میں آل سعود خاندان میں پیدا ہونے والی خلیج کے ساتھ ہی سعودی حکمران، حکومت کے اندر کسی بھی قسم کے ممکنہ خلفشار یا فوجی کودتا کے خوف میں مبتلا ہیں۔
دوسری جانب آل سعود خاندان مختلف بہانوں سے سعودی عرب کے عوام کی استبدادی اور جبر پر مبنی پالیسیوں کے خلاف جاری جدوجہد کو شدید طریقے سے سرکوب کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس دائرے میں سعودی حکمران کی یہ کوشش ہے کہ ملک کے سیکورٹی نظام میں غیر ملکی فورسز کی زیادہ سے زیادہ موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے عوام کے احتجاجات کو کچلنے کے لئے انہی غیر ملکی فورسز سے استفادہ کیا جائے۔
یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ آل سعود حکومت علاقے میں اپنی فتنہ انگیز اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کے دائرے میں، بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے اس ملک کے عوام کی انقلابی تحریک کو کچلنے اور اس کے ساتھ یمن میں جنگ کے شعلے بھڑکانے میں مصروف ہے۔
آل سعود حکومت مختلف قسم کے بہانوں کے ساتھ غیر ملکی فوجیوں کو اپنے ساتھ ملنے کے لئے زمین ہموار کررہی ہے تاکہ علاقے میں اپنے مداخلت پسندانہ اہداف کو آگے بڑھایا جائے۔
آل سعود حکومت کی یہ پالیسیاں ایسے میں جاری ہیں کہ یمن میں عوامی مزاحمت کی بے مثال جدوجہد کی وجہ سے، ریاض کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے ہیں اور آل سعود کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔ آل سعود کی مجموعی پالیسیوں سے نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت اپنے بے انتہا سیکورٹی اخراجات کے باوجود، شاہی خاندان کے لئے، مطلوبہ سیکورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔