شام کے علاقے غوطہ شرقی میں کارروائیاں اور مغرب کے شام مخالف مواقف
ایسے میں جبکہ شامی فوج، غوطہ شرقی میں دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، مغربی ممالک نہ صرف ایک مرتبہ پھر شام کی حکومت کے خلاف اپنے الزامات کا اعادہ کر رہے ہیں بلکہ وہ روس اور اسلامی جمہوریہ ایران سے یہ کارروائیاں بند کرانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
ریف دمشق کے غوطہ شرقی علاقے کی کارروائیاں کیوں اہمیت رکھتی ہیں؟ بلا شبہ اس کا سب سے اہم جواب یہ ہوگا کہ غوطہ شرقی، دارالحکومت دمشق کے قریب واقع ہے۔ موجودہ حالات میں تین سو پندرہ کیلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے غوطہ شرقی کے علاقے کا ایک سو چھ کیلومیٹرکا رقبہ مسلح گروہوں کے کنٹرول میں ہے۔ 106 کیلومیٹر کے رقبے میں سے بیالیس فیصد پر جیش الاسلام ، ستائیس فیصد پر جبھۃ النصرہ ، پچیس فیصد پر فیق الرحمن اور چھ فیصد پر احرارالشام قابض ہیں۔
غوطہ شرقی جو دمشق کے قریب واقع ہے، آخری علاقہ ہے جو مسلح گروہوں کے کنٹرول میں ہے۔ دہشت گرد گروہ کہ جو پورے شام میں شدید دباؤ سے دوچارہیں، انہیں مختلف علاقوں میں پے در پے شکستوں کا سامنا ہے ۔ خاص طور پر ان مسلح گروہوں نے غوطہ شرقی میں عام شہریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائیاں بھی انجام دی ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں ۔ مسلح گروہ ، غوطہ شرقی کے دمشق کے قریب واقع ہونے کے سبب اس کوشش میں ہیں کہ اس علاقے کو شام کی حکومت پر دباؤ کے لئے استعمال کریں۔
اسی سلسلے میں شام کی وزارت برائے امن و آشتی کے مشیر احمد منیر نے کہا ہے کہ مسلح افراد اور ان کے حامی غوطہ کے علاقے کو دمشق کے لئے بلکہ پورے شام کے لئے کمزور پوائنٹ سمجھ رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ یہ کمزوری ہمیشہ باقی رہے - ان حالات کے پیش نظر شامی فوج نے بریگیڈیئر سہیل الحسن کے زیر قیادت دمشق کے اطراف اور غوطہ شرقی کے علاقے میں دہشت گردوں کے چنگل میں گرفتار شامی شہریوں کو نجات دلانے کے لئے ان دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائی شروع کی ہے جس کا آج پانچواں دن ہے۔
یہ کارروائی کہ جو دمشق کے اطراف کے علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے انجام پا رہی ہے، مغربی طاقتوں نے شامی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فرانس کے صدر اور وزیر خارجہ ، اور شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نمائندے اسٹیفن دی میستورا جیسے افراد نے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہوئے غوطہ شرقی میں شامی فوج کی کارروائی کی مذمت کی ہے اور ایران اور روس سے کہا ہے کہ وہ ان کارروائیوں کو فوری طور پر روکے جانے کے لئے حالات فراہم کریں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں مغربی ممالک، ایران اور روس پر ان کارروائیوں کا ذمہ دار ہونے کا دعوی کر رہے ہیں؟ اس دعوے کی وجہ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ کے اجلاس میں مئی 2017 میں ہونے والا معاہدہ ہے کہ جس کی بنیاد پر ایران ، ترکی اور روس کے نمائندوں نے شام میں چار پرامن علاقوں کے قیام کے سمجھوتے پر دستخط کئے تھے۔ رپورٹوں کے مطابق روس نے، صوبہ ادلب ، شہر حمص، غوطہ شرقی اور جنوبی شام میں کشیدگی کم کرنے اور اسے پرامن علاقہ بنانے کی تجویز دی تھی جس پر ایران اور ترکی نے اتفاق کیا تھا اور یہی تینوں ممالک اس سمجھوتے پر نگراں اور اس پر عملدرآمد کے ضامن قرار پائے۔
حالیہ دنوں انجام پانے والی کاروائیوں میں بھی ایسے میں جبکہ شامی فوج نے دہشت گرد گروہوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے مغربی ممالک بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرکے شامی شہریوں کے مارے جانے کا جھوٹا دعوی کر رہے ہیں۔ 2013 میں بھی جب شامی فوج نے غوطہ شرقی میں کارروائی کرکے کچھ علاقے دہشت گردوں سے پاک کئے تھے اس وقت بھی دہشت گردوں اور شام کے مسلح مخالفین کے حامی مغربی ملکوں نے شامی فوج پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا تھا ۔
اس بناء پر وہ چیز جو شام اور مشرق وسطی کے علاقے میں عدم استحکام کا باعث ہے، شام یا عراق میں ایران کا مثبت کردار یا اس کی قانونی موجودگی نہیں ہے بلکہ اس عدم استحکام کا باعث، شام کے تعلق سے امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے جارحانہ رویے ہیں جو شام کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
شام میں امریکیوں کی غیر قانونی موجودگی اور اس کی جانب سے صیہونیوں کے جارحانہ اقدامات کی حمایت، دہشت گردوں کی بقا پر منتج ہوئی ہے۔ لیکن ایران، شام کے صدر بشار اسد کی قانونی حکومت کی درخواست پر اس ملک میں موجود ہے اور ان دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے کہ جو دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے ایک نام نہاد اتحاد تشکیل دے کر امریکی قیادت میں لڑ رہے ہیں تاہم اس سلسلے میں امریکی پالیسی، مبہم اور مشکوک ہے۔