ایثار و شہادت، ملت ایران کے حقیقی اقتدار کا سرچشمہ
ایران کے اطراف میں کچھ ایسے ممالک واقع ہیں جو سالانہ دسیوں یا سینکڑوں ارب ڈالر ہتھیاروں کی خریداری میں خرچ کرتے ہیں اور ان میں ان ہتھیاروں کی حفاظت کی بھی صلاحیت و توانائی نہیں پائی جاتی۔
خلیج فارس کے علاقے کے بعض ممالک ایسے ہیں جو اربوں ڈالر ہتھیاروں کی خریداری میں خرچ کرتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی امن وسلامتی کے حقیقی مفہوم کو درک نہیں کرسکے ہیں۔ وہ خود کو ہمیشہ علاقے سے باہر کے ملکوں کا مرہون منت سمجھتے ہیں اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی تعبیر کے مطابق بڑے ملکوں کی ایک گھڑکی سے ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور ان کی ایک مسکراہٹ سے ان کو اپنی پائیداری و سلامتی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ان ممالک نے اپنی خودمختاری و آزادی، اور عزت و آبرو کو ان ملکوں کے پاس گروی رکھ دیا ہے تاکہ اپنے لئے سلامتی خرید لیں۔ لیکن عملی طور پر انہوں نے اپنے تیل سے سرشار ذخائر کو ہتھیاروں کی کمپنیوں کے ہاتھوں تاراج کردیا ہے۔ جبکہ انہیں ہرگز حقیقی سلامتی حاصل نہیں ہوئی ہے کیوں کہ ملکی امن وسلامتی کو بیرون ملک سے درآمد یا خریدا نہیں جا سکتا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ہفتے کے روز تہران یونیورسٹی میں " ایثار وقربانی عالمی امن کی زبان" کے عنوان سے منعقدہ قومی سمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ پڑوسی ملکوں کے لئے باعث ننگ و عار نہیں ہے کہ امریکی صدر یہ اعلان کرے کہ میں نے جب تک ان سے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں لے لیا، علاقے کا دورہ نہیں کیا۔ ٹرمپ نے ایک سال قبل کہا تھا کہ میں ان کو ایک گائے کی مانند دوہنا چاہتا ہوں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ اور اسی جیسے دیگر ممالک، ایران کو ایک با اقتدار، طاقتور اور پرامن ترین ملک جانتے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ نے یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ ایران کو یہ سربلندی ، اور عزت و وقار کہاں سے حاصل ہوا ؟ کہا کہ اس اقتدار کی تشکیل اور اسے وجود میں لانے کے لئے دفاعی اور اسلحہ جاتی آمادگی اہمیت رکھتی ہے اور قطعی طور پر ایران کا میزائیل پروگرام بھی اس عمل میں ناقابل انکار کردار کا حامل ہے۔ لیکن کیا یہی وسائل ایران کے پڑوسی ملکوں کے پاس نہیں ہیں ؟ کیا سعودی عرب کے پاس ڈھائی ہزار کیلومیٹر دور تک مار کرنے والا میزائل نہیں ہے اور کیا اس کے پاس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور ایٹمی ہتھیاروں کو حمل کرنے والےمیزائل نہیں ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ان ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے خلیج فارس کے علاقے میں ہتھیاروں کے لیے 116 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب 67 ارب ڈالر کی لاگت کے ساتھ امریکہ اور چین کے بعد ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے مگر وہ اس کے باوجود خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قوم کے حقیقی اقتدار کا سرچشمہ ایثار و شہادت کی ثقافت ہے کہ جو انتالیس سال گذرجانے کے باوجود ابھی بھی پوری قوت و طاقت کے ساتھ جاری و ساری ہے اور اس وقت اسلامی انقلاب کی ثقافت اور ڈائیلاگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے گذشتہ مئی کے مہینے میں فوج کے کمانڈروں، فوجیوں، آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد اور دفاع مقدس کی یاد میں پیش کئے جانے والے پروگراموں کے منتظمین سے ملاقات میں فرمایا تھا کہ جانی اور مالی نقصانات کے باوجود دفاع مقدس نے ہمارے حالیہ دور اور مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ معاشرے میں انقلابی جذبے کا محفوظ رہنا اور اس کی تقویت اور آج تک انقلاب کے محفوظ رہنے کی وجہ مقدس دفاع کے ایام ہیں اور اگر وہ جہاد اور ایثار پر مبنی عمل نہ ہوتا تو یقینا انقلابی جذبہ خطرے سے دوچار ہوجاتا۔
بلا شبہ اگر آج ایرانی مجاہدین، مدافعان حرم کے طور پر شام میں داعش کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر سینہ سپر ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دفاع مقدس کے دوران شہادت پسندی اور ایثار و قربانی کا جو جذبہ عوام میں موجزن تھا وہی جذبہ آج بھی قائم ہے۔