سعودی ولیعہد کے دورہ قاہرہ کے اہداف
سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان چار مارچ کو اپنے تین روزہ دورۂ مصر میں قاہرہ پہنچے اور اس ملک کے صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی۔
سعودی عرب اور مصر کے درمیان وجہ مشترک اس میں ہے کہ دونوں ہی ملکوں میں حال ہی اقتدار میں تبدیلی آئی ہے۔ عبدالفتاح السیسی ، سعودی فرمانروا ملک سلمان اور ان کے بیٹے محمد سے صرف چھ مال قبل اقتدار میں آئے تھے۔ السیسی نے مصر میں جولائی 2014 میں اور ملک سلمان اور محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں جنوری 2015 میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ محمد بن سلمان جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کی زیادہ تر توجہ ریاض اور قاہرہ کے تعلقات کے مضبوط ہونے پر ہے۔ اس بناء پر بن سلمان 2015 سے اب تک پانچ مرتبہ قاہرہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ بن سلمان نے 2015 میں قاہرہ کے تین دورے کئے تھے اور ایک دورہ 2016 میں کیا تھا اور پھر 2017 میں انہوں نے قاہرہ کا دورہ نہیں کیا اور اس وقت فروری 2018 میں انہوں نے پانچویں بار قاہرہ کا دورہ کیا ہے۔
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ محمد بن سلمان نے مصر کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قرار دیا ہے۔ کیوں کہ مصر ایک بڑا عرب ملک ہے کہ جو اپنے ماضی کے پیش نظر اور اسی طرح اسے علمی و سیاسی لحاظ سے دنیائے عرب میں جو پوزیشن حاصل ہے ، یہی کافی ہے کہ وہ سعودی عرب کی جاہ پسندی اور جنگ پسندی کی خارجہ پالیسی کے آگے بڑھنے میں کوئی مانع نہ بنا ہے، اور یہی چیز سعودی ولیعہد کے لئے ایک امتیاز اور ان کی خوش قسمتی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب سے محمد بن سلمان ولیعہد بنے ہیں سعودی عرب کے ساتھ بعض چھوٹے ملکوں جیسے قطر، کویت اور اردن سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔
بن سلمان کے اس حالیہ دورے کی اہمیت اس میں ہے کہ یہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ ہے جو انہوں نے ولیعہدی کے عہدے پر مقرر ہونے کے بعد کیا ہے۔ جس وقت سے بن سلمان جون 2017 میں محمد بن نائف کی جگہ پر ولیعہد مقرر کئے گئے تھے ابھی تک انہوں نے کوئی غیرملکی دورہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ ، شہزادوں کے ذریعے ممکنہ بغاوت کردیئے جانے سے لاحق ان کی تشویش تھی ۔ قاہرہ کا ان کا یہ دورہ اور اسی طرح برطانیہ اور امریکہ کے دورے جو آئندہ دنوں میں اسی مہینے میں ہونا طے پائے ہیں، اس پیغام کے حامل ہیں کہ اب اس سعودی جوان ولیعہد کو اندرون ملک شہزادوں کی بغاوت سے لاحق تشویش کم ہوگئی ہے۔
بن سلمان اور السیسی کے مذاکرات کا اہم ترین محور، قطر کے ساتھ کشیدگی تھا۔ مصر نے تین ملکوں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر پانچ جون 2017 سے اب تک دوحہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو، کہ جسے انہوں نے قطرکی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کا نام دیا ہے، منقطع کر لئے اور اس کا بائیکاٹ کردیا۔ مصر نے ایسے میں قطر کے خلاف دیگر تین ملکوں کا ساتھ دیا کہ السیسی کے اقتدار میں آنے کے وقت سے ہی دوحہ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ تھے کیوں کہ انہوں نے اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا لیکن قطر کے ، تحریک اخوان المسلمین کے ساتھ اچھے روابط قائم ہیں یہاں تک کہ اس مصری تحریک کے بعض رہنما اور اراکین قطر کے میزبان بھی ہیں۔ محمد بن سلمان نے قاہرہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے قطری عوام کی آشکارا توہین کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آپ کو قطر کے بحران میں مصروف کرنا نہیں چاہتے اس لئے کہ قطریوں کی تعداد مصر کی ایک سڑک پر چلنے والوں کے برابر بھی نہیں ہے۔
در ایں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور بعض دیگر علاقائی مسائل منجملہ شام کے بحران کا مسئلہ بھی، مصری حکام اور سعودی ولیعہد کے مذاکرات کا محور ہے۔ محمد بن سلمان کا دورۂ قاہرہ ، السیسی حکومت کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ السیسی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی مصر میں رواں مہینے میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے فاتح ہیں لیکن السیسی بن سلمان کے دورے کو اپنے انتخابات کے اہداف میں استعمال کر رہے ہیں۔
در ایں اثنا ایسے میں جبکہ سعودی عرب قاہرہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرکے سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے، تو قاہرہ بھی ریاض کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے ذریعے، سب سے زیادہ اپنے اقتصادی اہداف کے درپے ہے۔ اسی بنیاد پر عبدالفتاح السیسی نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محمد بن سلمان کا استقبال کیا جبکہ محمد بن سلمان کا عہدہ اور منصب مصر کے صدر سے نیچے ہے۔