جنرل سلیمانی کے قتل کے غیر قانونی ہونے پر اقوام متحدہ کی تاکید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک جارحانہ اور غیر قانونی اقدام میں تین جنوری 2020 کو، ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کےہمراہ افراد کے قتل کا براہ راست حکم صادر کیا تھا-
اب اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر نے امریکی دہشتگردوں کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کئے جانے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف تھا۔ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹراگنیس کیلامارڈ Agnès Callamard نے منگل کو امریکہ کے توسط سے جنرل سلیمانی کے قتل کو عالمی قوانین کی خلاف ورز بتاتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے ایک نئی بدعت کا آغاز ہوسکتا ہے کہ جو ممکن ہے مستقبل میں ایک المیے کی شکل اختیار کر جائے- کیلامارڈ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے ذریعے ایک حکومت نے فوجی طاقت کا استعمال کرکے عالمی قوانین اورمعیارات کی دھجیاں اڑائی ہیں- اس واقعے میں ایک سرکاری عہدیدار کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس سے قبل تک غیر سرکاری افراد نشانہ بنتے رہے ہیں اور یہ اقدام عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے-
واضح رہے کہ سردار محاذ استقامت جنرل قاسم سلیمانی تین جنوری کو عراقی حکام کی دعوت پر عراق گئے تھے جہاں بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی دہشت گرد فوج نے ان کے کنوائے پر بزدلانہ حملہ کردیا تھا۔ اس حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے علاوہ عراق کی عوامی رضاکار فورس حشدالشعبی کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس اور آٹھ دوسرے افراد شہید ہوگئے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی خطے میں سرگرم تکفیری دہشتگردوں منجملہ داعش سے مقابلے کے میدان میں ایک نمایاں ترین کمانڈر تھے جنہوں نے خطے میں امریکی سازشوں کی ناکامی اور عراق و شام میں داعش کو شکست سے ہمکنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
پنٹاگون کے اعلان کے مطابق جنرل سلیمانی کے کنوائے پر ہوائی حملے کا حکم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہ راست صادر کیا تھا- امریکہ نے اس جارحانہ اقدام کے لئے یہ دعوی کیا تھا کہ جنرل سلیمانی امریکیوں اور اس کے فوجی اڈوں کے خلاف منصوبہ بندی کے مقصد سے عراق گئے تھے اسی لئے امریکہ کا یہ حملہ ایک پیشگی اقدام تھا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق کے سینئر حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے- عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے اتوار پانچ جنوری کو اس ملک کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ جنرل سلیمانی، عراق کے توسط سے ایران کا پیغام سعودی عرب کو پہنچانے کے لئے، عراق میں داخل ہوئے تھے- عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی تقریرمیں کہا تھا کہ جنرل سلیمانی ، سعودی عرب کے خط کا ، ایران کی جانب سے جواب لے کر بغداد گئے تھے کہ جسے اس سے قبل بغداد نے تہران کو دیا تھا- اس طرح سے واشنگٹن کے دعوے کا مکمل طور پر جھوٹ ہونا آشکارا ہوجاتا ہے۔
درحقیقت ٹرمپ انتظامیہ تقریبا ڈیڑھ سال قبل جنرل سلیمانی کے قتل کا ارادہ رکھتی تھی اور اس کے لئے وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی- ٹرمپ کے فوجی و سیکورٹی مشیروں کے نقطۂ نگاہ سے، بغداد میں جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ایک ساتھ موجودگی، واشنگٹن کے لئے ایک سنہرا موقع تھا کہ جسے وہ ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا تھا اور اس طرح سے امریکیوں نے اپنے بزدلانہ حملے کے ذریعے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا- نئے ثبوت و شواہد اور امریکہ کے سینئر حکام کے بیانات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن نے مہینوں قبل سے اس سلسلے میں فیصلہ کرلیا تھا اور وہ صرف اپنے اس جارحانہ حملے کو عملی شکل دینے کے لئے مناسب موقع ڈھونڈھ رہے تھے- چنانچہ امریکی چینل این بی سی نے تیرہ جنوری 2020 کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ٹرمپ نے جون 2019 میں یعنی سات مہینے قبل ، جنرل سلیمانی کے قتل کے لئے مشروط حکم جاری کیا تھا- ٹرمپ نے ایران کے ڈیفنس سسٹم کے ذریعے امریکی ڈرون گلوبل ہاک کو مار گرائے جانے کے بعد یہ حکم دیا تھا کہ اگر ایرانی فوج یا اس سے وابستہ گروہوں کے فوجی حملے امریکی فوجیوں یا امریکی باشندوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں تو جنرل سلیمانی پر فوری حملہ کرکے ان کو قتل کردیا جائے- ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنےکے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ ان کے اس اقدام کا سبب ، امریکی فوجیوں کے لئے ایران کا عنقریب خطرہ، اور ایران کے توسط سے چار امریکی سفارتخانوں پرحملے کی منصوبہ بندی تھا- جبکہ امریکہ کے سینئر حکام کے بیانات اور وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ کے متن سے ، ٹرمپ کے اس بیان کی قلعی کھل جاتی ہے کہ جنرل سلیمانی پر حملہ ایک فوری خطرے کی روک تھام کے لئے تھا- امریکی وزیر دفاع مارک اسپر نے بارہ جنوری کو امریکی سفارتخانوں پر حملے کے لئے جنرل سلیمانی کے آئندہ اقدامات کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو اس بارے میں کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے کہ ایران چار امریکی سفارتخانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی رکھتا تھا-
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین الیوٹ انگل Eliot Engel نے بھی جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے میں، کہ جنرل سلیمانی پر حملہ ایک "فوری خطرے" کی روک تھام کے لئے انجام دیا گیا تھا ، کھلاتضاد پایا جاتا ہے- امریکہ کے اس سینئر قانون ساز نے اس امر پر تاکید کی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ میں عنقریب کسی خطرے کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی صدر نے اس حملے کے جواز کے تعلق سے اپنے عوام کے سامنے جھوٹ بولا ہے-
اس وقت اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کے اس واضح موقف کے بعد، ٹرمپ کے جارحانہ اقدام کے غیر قانونی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور امریکہ اپنی ہٹ دھرمانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان قوانین پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے اور ایران پر، بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہا ہے-