نجف میں ایرانی قونصل خانے پر ایک بار پھر حملہ
عراق کے میڈیا ذرائع نے خبردی ہے کہ نجف اشرف میں قائم ایران کے قونصل خانے کی عمارت کو ایک بار پھر آگ لگادی گئی۔
عراق کی السومریہ نیوز ایجنسی نے خبردی ہے کہ نجف اشرف میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر ایک بار پھر حملہ کرکے اس کو آگ لگا دی گئی۔ نجف اشرف کی شہری انتظامیہ نے بھی اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائربریگیڈ کے افراد نے آگ پر قابو پالیا ہے۔
قبل ازیں بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بھی کچھ نقاب پوش شرپسندوں نے جن کے بارے میں نجف کے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق نجف سے نہیں تھا بلکہ وہ کہیں اور سے آئے تھے نجف میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرکے اس کو آگ لگادی تھی جس کے نتیجے میں عمارت کا ایک حصہ جل گیا تھا۔ عراق میں بلوائیوں نے اس سے پہلے کربلا اور بصرہ شہروں میں بھی ایرانی قونصل خانوں پرحملہ کیا تھا ان بلوائیوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں عراق میں متعین خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں کے سفارتخانوں کی جانب سے اس طرح کے فسادات اور بلوے کرانے کے لئے خطیر رقم دی گئی ہے۔
عراق کے بعض صوبوں منجملہ نجف میں پچھلے کئی ہفتوں سے بے روزگاری بدعنوانی اور دیگر رفاہی مسائل کے خلاف عوام مظاہرے کررہے ہیں لیکن پچھلے چند روز سے ان مظاہروں نے بلوے اور تشدد کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے نتیجے میں اب تک دسیوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے ہیں۔
عراق کی تنظیم حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں عراق میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کررہی ہیں -
نجف اشرف میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے پر حملے کا یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب عراقی پارلیمنٹ نے اتوار کو وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا استعفا قبول کرلیا- عراق کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے وزیراعظم کا استعفا قبول کرلئے جانے کے پندرہ روز کے اندر اندر عراقی صدر کو نئے وزیراعظم کے نام کو پیش کرنا ہوگا اور نئے وزیراعظم کو بھی تیس روز کے اندر کابینہ تشکیل دینی ہوگی چنانچہ اگر نیا وزیراعظم اس مدت میں کابینہ تشکیل نہیں دے سکا تو صدر کو پندرہ دن کے اندر کسی دوسرے شخص کا نام وزیراعظم کے عہدے کے لئے پیش کرنا ہوگا-
وزیراعظم کے ذریعے تشکیل دی جانے والی کابینہ کو بھی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا- اور اگر عراقی صدر نیا وزیر اعظم نامزد نہیں کرسکا اور حکومت تشکیل نہ پاسکی تو پھر خود ملک کا صدر عبوری طورپر وزیراعظم کے امور اور فرائض بھی سنبھالے گا۔ اس درمیان ایک اور نکتہ یہ ہے کہ عراق کے آئین کے مطابق صدر کو وزیراعظم کے نام کا انتخاب پارلیمنٹ میں سب سے بڑے دھڑے سے ہی کرنا ہوگا-
یعنی وہ جماعت وزیراعظم کا نام پیش نہیں کرسکتی جس کی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں بلکہ پارلیمنٹ میں سب سے بڑے دھڑے سے ہی وزیراعظم کانام پیش کیا جاتا ہے اور نامزد وزیراعظم کو بھی ایک سوپینسٹھ ارکان والے ایوان سے پچاس فیصد سے زائد ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے-
اس وقت پارلیمنٹ میں سب سے بڑے دھڑے کی تشکیل ہی عراق کا ایک بڑا مسئلہ ہے- اس لئے عراق کی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ملک میں حکومتی خلا کو روکنے کے لئے اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر نئے وزیراعظم کا نام پیش کرنے کے لئے جلد سے جلد کسی اتفاق رائے تک پہنچیں کیونکہ عراق کے دشمن خاص طور پر امریکا اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ عراق میں ایک قانونی اور جمہوری حکومت برسراقتدار آئے بلکہ وہ عراق کے آئین کو ہی تباہ کردینا چاہتے ہیں- اس درمیان عراق کے دشمنوں خاص طور پر امریکا اوراس کے اتحادیوں کی کوشش ہے کہ وہ عراقی پارلیمنٹ کو ہی تحلیل کرادیں اور عراقی پارلیمنٹ کی تحلیل کا معاملہ بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں سینیریو کا ایک بڑا حصہ ہے- لیکن آج عراق کی مشکل ایسی نہیں ہے جو افراد کی تبدیلی اور حتی قبل از وقت انتخابات سے کم ہوگی بلکہ اس مشکل پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ پرتشدد مظاہرے ختم ہوں ، ملک میں نئی اصلاحات کے لئے حکومت اور پارلیمان کو موقع دیا جائے اور خاص طور پر ملک کے آئین، انتخابی قوانین اور پارٹیوں سے متعلق قوانین کی اصلاح کی جائے جو امریکیوں نے عراقی عوام کے لئے بنائے تھے۔