مرسل اعظم ﷺ کی تبلیغی روش - حصہ اول
تحریر: مولانا سید ولی الحسن رضوی
خدا کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ دعوت اسلام کے وقت اپنے اہداف و مقاصد سے معمولی ترین انحراف اور پسپائی کے بغیر الہی صداقت اور صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے (کہف؍۲۹) ہمیشہ نرم رفتاری اور نرم گفتاری سے کام لیتے تھے، حتی دشمنوں کے ساتھ آپ نے کبھی بھی دین کے معاملہ میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا (سورہ قلم؍ ۸۔۱۰) نرم روی ، حسن سلوک اور سازباز یا سمجھوتے میں بڑا فرق ہے، خدا نے حضرت موسی (ع) اور ہارون (ع) کو جس وقت تبلیغ کے لئے فرعون کے پاس بھیجا تھا تو وہاں بھی حکم دیا تھا کہ تم دونوں جاؤ فرعون نے سرکشی اختیار کی ہے، اس کے ساتھ نرم روی سے کام لینا، شاید اس کے اوپر تمہاری نصیحت کارگر ہو اور وہ ڈرنے لگے۔
چنانچہ نرم کلامی ، پسپائی کے معنی میں نہیں ہے، جبکہ سازباز، لین دین یا سمجھوتے میں دشمن کے ساتھ بعض امور میں ہی صحیح پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ مرسل اعظم (ص) نے بت پرستوں کے مقابلے میں ایک لمحے کیلئے بھی پسپائی اختیار نہیں کی، قل یا ایہا الکافرون، لا اعبد ما تعبدون، کہدیجئے اے کافرو ! ہم ان کی عبادت اور پرستش نہیں کرسکتے جن کی تم عبادت کرتے ہو، آئمہ معصومین علیہم السلام کا بھی ہمیشہ یہی طریقہ اور سلیقہ رہا ہے، امیرالمؤمنین (ع) نے نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۴؍ میں فرمایا ہے: ’’و لَعُمری ما علیَّ من قتال ۔۔۔ ولا ایہانٌ ‘‘ –
مجھے زندگی کی قسم ! میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رعایت اور سستی نہیں کروں گا-