تیونس میں عوام // وھابی افکار و نظریات سے بیزار
تحریر : ن تقوی
ایسے میں جبکہ تیونس میں وھابی افکار کی ترویج و اشاعت کے لئے سعودی عرب نے بہت زیادہ سرمایہ خرچ کیا ہے، لیکن تیونس میں اس ملک کے عوام خاصطور پر تیونس کے دانشوروں نے ان افکار و نظریات کا خیر مقدم نہیں کیا۔
تیونس کے وزیراعظم ہاؤس میں میڈیا سیل کے انچارج غفران الحسینانی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے ساتھ وھابی افکار و نظریات خاموشی سے تیونس کی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں پہنچائے گئے، لیکن کبھی بھی تیونس کے دانشوروں نے ان نظریات کا خیر مقدم نہیں کیا۔
تیونس ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سعودی عرب، وھابی افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لئے وسیع پیمانے پر پیٹرو ڈالر خرچ کررہا ہے۔تیونس میں وھابیت کی ترویج کے لئے اتنی زیادہ رقم خرچ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے تیونس سن 2011 میں وہ پہلا عرب ملک تھا کہ آمرانہ نظام کا خاتمہ ہوا۔
اس روسے آل سعود نے یہ کوشش کی کہ تیونس کے مدارس اور تعلیمی اداروں میں پیٹرو ڈالر خرچ کر کے وھابی افکار و نظریات کو اس ملک میں فروغ دے اور تیونس کو دیگر عرب ملکوں کے لئے مثالی نمونے کے طور پر پیش کرے۔
اس بات کے وجود کہ تیونس اور سعودی حکومت کے درمیان قریبی تعلقات موجود ہیں، وھابی افکار و نظریات کا نہ صرف تیونس کے دانشوروں نے خیر مقدم نہیں کیا بلکہ حتی بعض حکومتی عہدیدار اور تیونس کی علمی شخصیات نے آشکارا طور پر اس ملک میں وھابی افکار و نظریات کی ترویج کے لئے آل سعود کی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے دھشت گردی کو وھابی افکار و نظریات کا ہی نتیجہ قرار دیا ہے۔
اس درمیان تیونس کے سابق مذہبی امور کے وزیر عبدالجلیل بن سالم نے اس ملک کی پارلیمنٹ میں تین نومبر کو ہونے والے اجلاس میں جس میں تیونس میں سعودی عرب کے سفیر کے علاوہ سعودی عرب کے دیگر عہدیدار بھی موجود تھے، سعودی عرب کے دقیانوسی دینی مدارس علاقے میں انتہاپسندانہ نظریات کے مراکز کے عنوان سے پہنچانے جاتے ہیں۔ بن سالم نے اسی طرح اس اجلاس میں تیونس میں ریاض کے سفیر اور عرب ملکوں کے داخلی امور کے وزراء کی کونسل کے سیکریٹری کہ جن کا تعلق بھی سعودی عرب سے ہے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب دینی مدارس کی اصلاح کرے، کیونکہ دہشت گرد انہی مدارس سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔
اگرچہ تیونس کی حکومت نے وھابیت اور سعودی عرب کے حوالے سے عبدالجلیل بن سالم کے حقیقت پسندانہ بیان پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے، تیونس کی مذہبی امور کے وزارت ان سے واپس لے لی ہے لیکن ان کا بیان تیونس میں وہابی افکار و نظریات کی کانامی کی واضح و آشکارا علامت شمار ہوتا ہے۔
تیونس کے اس اعلی عہدار کے بیان سے قبل مختلف خبروں اور رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوچکی تھی کہ سعودی عرب دنیا میں دہشت گردی کی سوچ پروان چڑھانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی ملکی اور غیر ملکی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ خطے اور دنیا کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث اکثر عناصر کا تعلق یا تو سعودی عرب سے ہے یا وہ سعودی عرب کی وہابیت سے متاثر ہیں اور ان کو آل سعود کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی جڑ وہابیت کے غلط اور انتہا پسندانہ نظریات ہی ہیں۔ ان غلط عقائد نے ہی خطے اور دنیا میں آل سعود کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اس وقت سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گردہ گروہ منجملہ داعش اور القاعدہ مختلف ناموں کے ساتھ مثلا انصار الشریعہ، بوکوحرام اور الشباب افریقہ ، ایشیا حتی یورپ میں سرگرم ہیں اور یہ گروہ عالمی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔