بدگمانی ایک خطرناک بیماری
تحریر : حسین اختر
بدگمانی ایک نہایت ہی خطرناک قسم کی روحانی بیماری اور بہت سی ناکامیوں اورمایوسیوں کا سرچشمہ ہے ۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی روح کو عذاب و الم میں مبتلا کردیتی ہے اور اس کے برے اثرات انسانی شخصیت سے نا قابل محو ہوا کرتے ہیں ۔ رنج وغم ہی وہ مرکز احساس ہے جہاں سے ممکن ہے بدگمانی کا آغاز ہوتا ہو جو احساسات و جذبات میں ایک شدید انقلاب اورطوفان کا سبب بنتاہو ، بد گمانی کا بیج جو اس راہ گزر سے مزرعہ قلب میں بویا جاتا ہے وہ انسانی افکارو اندیشوں پر ناگوار و تلخ اثرات مرتب کرتا ہے ۔ جس کا آئینہ روح، بدگمانی کے غبار سے کثیف و تاریک ہوچکا ہو اس میں محض یہی نہیں کہ آفرینش کی خوبیاں و زیبائیاں اجاگر نہیں ہوسکتیں بلکہ سعادت و خوش بختی اپنی صورت بدل کرملال و نکبت بن کر ظاہر ہوتی ہے اور ایسا شخص کسی بھی شخص کے کردار و افکار کو بےغرض تصور نہیں کرسکتا کیونکہ ان میں مثبت قوت مقصود ہوتی ہے اورایسے لوگ اپنے افکار بد سے اپنے لئے مشکلات پیدا کرلیتے ہیں ۔
جس طرح حسن ظن رکھنے والے شخص کی طاقت اس کے اطرافیوں میں اثر انداز ہوتی ہیں اور وہ شخص اپنے قریبی افراد کی روح امید کو طاقت بخشتا ہے اسی طرح بدگمان شخص اپنے قریب رہنے والوں کے قلوب میں رنج و غم کی کاشت کرتا ہے اور لوگوں کے اس چراغ امید کو خاموش کردیتا ہے جو زندگی کے پیچ و خم میں ضوفشاں رہتا ہے ۔
بد گمانی کے برے اثرات صرف روح تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے اثرات جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور ان بیماریوں کا علاج مشکل ہو جاتا ہے بدگمان شخص کے اندر کنارہ کشی، دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ طورپر مشاہدہ کئےجاسکتے ہیں اوراسی نا پسندیدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر ترقی کی صلاحیتوں کو کھو بیٹھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر شائستہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اگر ہم معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہو جائےگا کہ جو لوگ ایک دوسرے کے بارے میں مختلف طرح کی گفتگو کیا کرتے ہیں وہ سب بغیر جانے بوجھے ، بغیر غور و فکر اور بدگمانی کی وجہ سے ہوتی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ان کی قوت فیصلہ بھی کمزور ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود صحیح و اطمینان بخش تشخیص سے پہلے اپنا حتمی فیصلہ دے دیتے ہیں ۔ ان کی گفتگو میں کبھی ذاتی غرض بھی نمایاں ہوتی ہے اور یہی سب سے بڑا وہ عیب ہے جس کی وجہ سے رشتہ الفت و محبت ٹوٹ جاتا ہے، اتحاد قلبی ختم اور ایک دوسرے پراعتماد کا سلسلہ نابود ہوجاتا ہے اوران کے اخلاقیات تباہ و بر باد ہوجاتے ہیں ۔