توبہ، رحمت الہی کا عظیم دروازہ - حصہ دوم
تحریر : حسین اختر
قیامت کے دن جب انسانوں کوحساب و کتاب کے لئے میدان محشر میں لایا جائےگا اور ان سے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا تو یہ بدنصیب انسان کہیں گے کہ پروردگارا میں نادان و بے خبر،اپنی شہوت و غضب، خواہشات نفسانی کا اسیراورشیطان کے وسوسوں کے سامنے بے بس تھا توخدواندعالم جواب میں فرمائے گا کیا تم پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی جو تمہاری قوت و استطاعت سے باہرتھی؟ کیا میں نے توبہ کے بارے میں سخت شرائط عائد کئے تھے؟ اس وقت گنہگار انسان بارگاہ احدیت میں عرض کرے گا۔ خدایا میری حالت پر رحم فرما تونے میرے حیلہ وحجت کا خاتمہ کردیا۔تجھے جواب دینے میں میری زبان کام نہیں کرتی تیرے سوالات سے میرے دل پر دہشت طاری ہوگئی ہے اور میں جواب سے قاصر ہوں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم توبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: گناہ سے پشیمانی کا نام توبہ ہے پس معلوم ہوا گناہ سے پشیمانی ہی توبہ کی حقیقت ہے۔ اور انسان کو محسوس کرنا چاہيئے کہ خدائے عزوجل کے نزدیک سب سے بدتر چیز اس کی نافرمانی ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہے ۔اس طرح کا احساس رکھنے والا انسان، اس غلام کی مانند ہے جو اپنے مولا کی مرضی کے خلاف کوئی عمل اس غفلت میں انجام دیتا ہے کہ مولا اس کا جرم نہیں دیکھ رہا حالانکہ وہ سب کچھ پوشیدہ طور سے دیکھ رہا تھا مگر جب بعد میں غلام کواس بات کی خبر ہوتی ہے تو وہ دل سے سخت پچھتانے لگتا ہے اور زبان سے معذرت چاہتا ہے یا پھر اس تاجر کی مانند ہے جو اپنے کسی عقلمند دوست کے منع کرنے کے باوجود کوئی لین دین کرے اور اس میں اپنے تمام سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کافی مقروض بھی ہوجائے۔اس صورت میں وہ اس لین دین سے کس قدر پریشان اور حد درجہ پشیمان ہوگا۔لیکن خداوند کریم کے حضور میں دل سے پشیمانی کافی ہے چنانچہ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: توبہ کے لئے یہی کافی ہے کہ بندہ اپنے کئے پر نادم ہو۔چنانچہ گناہ پر ندامت کا لازمہ یہ ہے کہ اس گناہ کو آئندہ ترک کرنے کا پختہ ارادہ کرے اوراگر ایسا نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت وہ اس گناہ سے پشیمان نہیں ہواہے ۔
فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی بندہ کسی بھی قسم کا گناہ کرے اور اس کے بعد دل سے پشیمان ہوجائے تو خداوند عالم اس سے پہلے کہ وہ زبان سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرے اسے معاف کردیتا ہے ۔