صلہ رحم ایک دینی فریضہ
تحریر : حسین اختر
اسلام نے جہاں معاشرے کو گناہوں اور آلودگیوں سے بچانے کے لئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسا وسیع نظام پیش کیا ہے وہیں خاندانوں اور ان کی عمدہ روایتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے صلہ رحمی جیسے عظیم اصول پرعمل پیرا ہونے کی تاکید بھی کی ہے ،اسلامی حکومت ہر فرد کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے اسباب پیدا کرتی ہے اور اس کے بعد رشتہ داروں اور تمام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صلہ رحم اور اسلامی برادری کے جذبے سے محروم طبقے کی حمایت و تعاون کریں۔ دین اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک صلہ رحم ہے لغت میں صلہ کے معنی ملانے اور پیوند لگانے کے ہیں اور اصطلاح میں اپنے عزيز و اقارب کے ساتھ احسان کرنے اور بہترین برتاؤ کے ساتھ پیش آنے اور عطا و بخشش کے ذریعے فائدہ اور راحت پہنچانے کے ہیں اور لغت میں رحم کے معنی مہربانی اور شفقت جب کہ عام اصطلاح میں مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے کے ہیں۔
توحید پروردگار اور اطاعت والدین کے حکم کے ساتھ جس چيز کا حکم دیا گیا وہ یہی صلہ رحم ہے ۔ چنانچہ سورہ نساء کی چھتیسویں آیت میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے : اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں، یتیموں ، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ، دور کے ہمسایہ، پہلو نشین،مسافرغربت زدہ، غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتاہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: صل رحمك و لو بشربة من ماء و افضل ما يوصل به الرحم كف الاذى عنها:( اصول کافی ج،۲، ص ۱۵۱ )۔ صلہ رحم کرو چاہے شربت کے پانی ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو اور بہتر یہ ہے کہ دوسروں کو اذیت دینے سے پرہیز کرو، کیونکہ والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحم کرنے سے حساب آسان ہوجاتا ہے۔ اور اسی کے مقابلے میں قطع رحمی ہے جو گناہ کبیرہ ہے ، قرآن کریم نے قطع رحم کرنے پر لعنت کی ہے اور ان کی تباہی و بربادی اور ہلاکت کی خبر بھی دی ہے، سورہ محمد کی بائیسویں اور تیئیسویں آیت میں ارشاد الہی ہوتا ہے: " فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَكُم أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمى أَبْصارَهُمْ " تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحب اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کر لو، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنا دیا ہے۔
پروردگارعالم نے اس آیت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے اور اگر اس کے برخلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ اسی طرح بے شمار آیتوں میں خدا نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی صلہ رحمی کے بارے میں بہت زيادہ تاکید اور قطع تعلق سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : صلہ رحم کرنے سے عمر زیادہ ہوتی ہے اور اس کا ثواب سو شہیدوں کے ثواب کے برابر ہے ۔ صلہ رحم میں اجتماعی، نفسیاتی اور اخلاقی نتائج و ثمرات کے علاوہ معنوی اور اخروی ثمرات بھی پائے جاتے ہیں ۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ایک صحابی ”معاذ بن جبل“ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تقوائے الہی اختیار کرو، سچ بولو، امانت میں خیانت نہ کرو، وعدہ کرو تو وفا کرو، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، صلہ رحم کرو اور یتیموں سے محبت کرو ۔ جب کسی سے ملاقات کرو توبلند آواز سے سلام کرو ، کسی کو اذیت نہ پہنچاؤ، اپنے ایمان کو مستحکم کرو ، دین میں تحقیق کرو، قرآن کریم میں غور و فکر کرو اور آخرت کو ہمیشہ یاد رکھو ، قیامت کے حساب سے ڈرو، موت کو بہت زیادہ یاد کرو اور مسلمانوں کو ناسزا نہ کہو ۔ (ارشاد القلوب ج ۱، ص ۱۹۳)