Jan ۰۴, ۲۰۱۷ ۲۰:۵۴ Asia/Tehran
  • موت، محمد و آل محمد سے ملاقات کا ذریعہ

تحریر : حسین اختر

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور جس نے بھی اس فانی دنیا میں قدم رکھا ہے اسے ایک نہ ایک دن اس عارضی دنیا سے رخت سفر باندھنا ہی ہے قرآن کریم میں پروردگار عالم فرماتا ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ موت وہ ذا‏ئقہ ہے جسے ہر فرد بشر کو چھکنا ہے یا اسی طرح سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتاہے: اے میرے حبیب آپ کہہ دیجئے کہ تم جس موت سے فرار کر رہے ہو وہ خود تم سے ملاقات کرنے والی ہے۔

موت نے جب انبیاء اور اولیاء الہی سے ملاقات کی تو پھر اس انسان کی کیا بساط ہے جو موت سے فرار کرسکے، موت کے سامنے ہر شخص بے بس ہو جاتا ہے صرف اور صرف ذات خدا ہے جس کو کبھی فنا نہیں ہے یعنی ہر چیز کو فنا ہے مگر صرف ذات الہی باقی رہے گی اسی مطلب کی جانب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام  نے دعائے کمیل میں اس طرح اشارہ فرمایا ہے خدایا ہر چیز کے فنا ہو جانے کے بعد بھی تیری ذات باقی رہے گی لیکن اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نہ صرف موت سے خوف کھاتے ہیں بلکہ موت اور قبرستان کا نام سن کر کانپنے اور لرزنے لگتے ہیں، یا جب کسی کے سامنےموت کا تذکرہ کیا جائے تو فورا ہی کہہ دیتے ہیں کہ مرے تمھارا دشمن ، خدا ہمیں طول عمرعطا کرے۔

اگر موت، قبر، حساب و کتاب، قیامت، آخرت پر گفتگو ہوتی ہے تو بحث ہی کو بدل دیتے ہیں تا کہ اس کی یاد سے اضطرابی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے اورگزرتے ہوئے اوقات تلخ نہ ہوجائیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ چونکہ انسان موت سے نفرت کرتا ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انسان موت سے کیوں نفرت کرتا ہے؟

فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ اے فرزند رسول آخر مسلمان موت سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: چونکہ وہ موت کی حقیقت اور اس کے مفہوم سے ناواقف ہیں اس لئے نفرت کرتے ہیں، حالانکہ اگر اسے پہچان لیتے اور اس کی حقیقت کو درک کرلیتے تو یقیناً اس سے محبت کرتے اور ضرور جان لیتے کہ آخرت ان کے لئے دنیا سے بہتر ہے۔پھر آپ نے فرمایا: اے اباعبداللہ! بچے اور دیوانے اس دوا کو کھانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں جو ان کے بدن کو صحتمند کردیتی ہے اور ان کے مرض کو ختم کردیتی ہے؟ اس نے عرض کیا: چونکہ دوا کے فائدہ کو وہ نہیں جانتے۔آپ نے فرمایا: اس کی قسم جس نے محمد کو برحق نبی بنایا، اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکل ویسا ہی موت کے لئے آمادہ کرلے جیسا کہ حق ہے تو اس کے لئے موت اس دوا سے زیادہ فائدہ مند ہے جتنی اس علاج کرنے والے کے لئے فائدہ مند ہے، جان لو کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ موت کن کن نعمتوں تک پہنچاتی ہے تو اس عقلمند سے زيادہ موت کوطلب کرتے اور اس سے محبت کرتے جو بیماریوں کو ختم کرنے اور صحت وتندرستی کے لئے دوا کی تلاش میں ہے۔

اگر انسان موت کو نابودی سمجھے گا تو ضرور اس سے فرار کرے گا، لیکن اگر موت کو ایک نئی زندگی، ابدی حیات اور ایک عظیم کائنات کی طرف کھلتا ہوا دروازہ سمجھے گا تو اس سے نہ صرف، نفرت، دوری اور فرار اختیار نہیں کرے گابلکہ اس سے محبت کرے گاجس کی زندہ مثال امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا وہ قول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: خداکی قسم! ابوطالب کا فرزند موت سے اتنا زيادہ مانوس ہے جتنا بچہ اپنی ماں کے پستان سے مانوس ہوتا ہے۔

اگر انسان خداوندعالم کے حکم کے مطابق عمل کرے، اپنی بیہودہ خواہشات کو ٹھکراکر امر الہی کو بجا لائے اور اہل بیت علیہم السلام کی ہدایات پرعمل کرتا ہوا صراط مستقیم پر گامزن رہے تو موت سے نفرت نہیں کرے گا اور نہ صرف نفرت نہیں کرے گا بلکہ محبت کرے گا کیونکہ اپنے نیک اعمال ، اہل بیت علیہم السلام سے ملاقات اور پروردگار کی عظیم نعمتوں تک پہنچ جائے گاجس تک پہنچنے کے بعد نہ گزشتہ کے بارے میں کوئي حزن ہوگااور نہ آئندہ کے بارے میں کوئی خوف۔ اسی کے پس منظر میں جناب جعفرجلالپوری ہندوستان سے کہتے ہیں۔

میں موت سے پہلے ڈرتا تھا      اب موت کامجھ کو خوف نہیں

ہے جب سے سنا کہ مرقد میں     مولا  کی  زیارت  ہوتی    ہے

 

 

ٹیگس