صنف نازک اور تشدد
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
عورتوں پر تشدد کی اصطلاح ایسی ہے جو خواتین پر ہر قسم کے ناروا سلوک اور جارحیت روا رکھنے کے بارے میں استعمال ہوتی ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عورتوں کے خلاف ہرقسم کی وحشیانہ کاروائی اور ناروا اقدامات کے ارتکاب کوجو ان کے جنسی یا نفسیاتی آزار واذیت کا باعث بنیں، تشدد میں شامل قرار دیاہے۔ قابل ذکر ہے کہ عورتوں پر تشدد کے مقابلے کے دعووں کے باوجود، آج کی دنیا میں عورتوں پر بیجا ظلم وستم اور تشدد وجارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
عورتوں کے خلاف تشدد آمیز اقدامات میں ، جنگ سے پیدا ہونےوالے تشدد آمیزاقدامات بھی شامل ہیں۔باوجودیکہ مسلحانہ تنازعات میں عورتوں کا چنداں کردار نہیں ہوتا لیکن عورتیں اور بچے زیادہ تر مسلح جنگوں کی بھیٹ چڑھائے جاتے ہیں۔اس وقت فلسطین، غزہ، لبنان، عراق ، شام، افغانستان اور پاکستان میں عورتیں اور لڑکیاں تشدد کی بھیٹ چڑھائی جارہی ہیں ۔میانمار میں بھی عورتیں اور بچّے اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہیں۔میانمار میں وسیع پیمانے پر جو نسل کشی ہورہی ہے ، اس کی اصلی بھیٹ عورتیں اور لڑکیاں ہیں۔غزہ اور فلسطین میں صہیونی حملوں میں زیادہ تر عورتیں ہلاک، زخمی اور گرفتار کی جاتی ہیں علاوہ ازیں مشرق وسطی میں وہابیوں اور انتہا پسندوں کے تخریب کارانہ اقدامات کے نتیجے میں جنسی تشدد وجود میں آیاہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ شام کی حکومت کے خلاف وہابیوں کی جنگ کے مسئلے میں شام کی مسلمان عورتوں کو قیدی بنانے اور ان سے جنسی استفادہ کرنے پر مبنی ایک اردنی سلفی مفتی کا فتوی ، شام کی عورتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد آمیز اقدامات کا باعث بنا حتی کہ مصر کی ایک کمپنی نے کہلم کھلا یہ اعلان کیا کہ ( شام کی باپردہ خواتین کی جس قدر ضرورت ہو فراہم ہیں) یہ عورتوں پر اعلانیہ تشدد کی شدید ترین شکل ہے ۔
اسی طرح ایک وہابی مفتی نے عورتوں کو شام میں حکومت مخالف دہشتگردوں سےاپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کی جانب رغبت دلائی اور اس کے فریب میں بہت سی لڑکیاں آگئیں اوروہ ایک ہی روز میں مختلف مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں۔ان میں سے بعض لڑکیوں نے اپنے وطن واپس جاکر ان حالات کا ذکر کیا جن کا انھیں شام میں سامنا کرنا پڑا۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند کرنے کے کنوینشن کی منظوری کے پیش نظر ممالک کا فریضہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں نافذ العمل قوانین تنظیم کریں ایسا نظر آتاہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے مقابلے کے لئے عالمی برادری کو اقوام متحدہ کے منظور کردہ اصول وقوانین اور بین الاقوامی کنونشنوں کے نفاذ کی ضمانت اور نگرانی کے امور کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے ۔علاوہ ازیں اخلاقی اقدار اور الہی ادیان کے احکام کی پابندی بھی عورتوں پر تشدد روکنے میں بہت ہی مؤثراور کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔