Jan ۰۴, ۲۰۱۷ ۲۱:۱۰ Asia/Tehran
  • دعا مومن کا ہتھیار ( حصہ دوم )

تحریر : ن تقوی

بعض اصحاب نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: دعا کیا ہے؟

فرمایا: انبیاء کا ہتھیار ہے تم بھی اپنے لیے لازم کرلو۔

عبداللہ بن سنان ابی عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: فرمایا : الدُّعا انفَذَ مِنَ السِّنان ۔

دُعا ردّ بلا ہے

فی زمانہ تقریباً ہر آدمی گرفتار بلا ہے۔ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ضرور مبتلا ہے‘ خواہ وہ پریشانی کاروبار کی ہو‘ اولاد کی طرف سے ہو‘ رشتہ داروں نے تنگ کر رکھا ہو یا پڑوسی وبال جان بنے ہوں‘ بہرحال بلاؤں کا جم غفیرہے جس نے بیچارے بنی نوع انسان کو چہار جہت سے محصور کر رکھا ہے۔ ایسی کیفیت میں چھٹے امام نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دعا کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دعا نازل ہونے والی بلا کو اس طرح توڑ دیتی ہے جیسے دھاگا توڑ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ مستحکم ہو۔ اسی زمرے میں چوتھے امام کا فرمان بھی ملتا ہے کہ روز قیامت تک بلا اور دعا ساتھ ساتھ ہیں لیکن دعا بلا کو رد  کر دیتی ہے اگرچہ بلا کیسی ہی سخت ہو۔

فلسفہ دعا سمجھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بلا ہمیشہ سخت ناگوار‘ ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہوتی ہے اور یہ مومن/مومنہ کا امتحان بن کر آتی ہے۔

 اس کے ساتھ ایک قضا بھی ہے جو نازل ہو چکی ہوتی ہے یا نازل ہونے والی ہے۔ بہرحال دونوں (بلا و قضا)سخت ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے صبروتحمل اور ضبط و نظم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں معصومین نے ہمارے لیے کچھ ہدایات بطور مشعل راہ چھوڑی ہیں۔ فرمایا کہ اکثر دعا کیا کرو کیونکہ وہ ہر رحمت کی کنجی ہے اور نجات کا ایک ذریعہ ہے۔ خزانہ خدا سے تب ہی ملے گا جب مانگو گے اور مانگنے کا انداز سوائے دعا کے نہیں ہے۔ دستور زمانہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹاؤ گے تب ہی کھلے گا۔ پس دعا سے رب کریم کے ہاں دروازہ ہائے حاجات وا ہوتے ہیں اور رحمن و رحیم کا در ایسا در ہے جس دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جانتا۔

ہمارے لیے بڑی بات ہے کہ ہم ارشادات آئمہ کے مطابق مانگنا سیکھ جائیں اور وہ الحمدللہ دعا کے توسل سے ہے۔ اس سلسلہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے جسے ابی ولاد نے ہمارے تک پہنچایا ہے۔امام ہادی علیہ السلام  نےفرمایا:"دعا کو اپنے لیے لازم قرار دو اور اللہ سے طلب کرو کیونکہ یہ طلب بلا کو رد کرتی ہے اگرچہ وہ مقدر ہو چکی ہو اور صرف جاری ہونا باقی ہو"۔ فرمایا جب اللہ سے دعا کی جائے گی اور عاجزی و انکساری سے سوال کیا جائے گا تو بلا رد کر دی جائے گی اور قضا بحکم خدا ٹل جائے گی۔

دعا شفائے مرض ہے

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین صحابی کمیل ابن زیاد کو جو دعا تعلیم فرمائی تھی اس میں دعا کا ذکر نہایت ارفع و اعلی  ہے اور اسی نام کے ساتھ پھر شفاء کو بھی منطبق کر دیا ہے۔ فرمایا‘ یوں پڑھو:

اِسمُہ دَواءٌ وذِکرُہ شِفَاءٌ۔

"اللہ کی یاد بطور عبادت دوا بھی ہے اور شفا بھی تو جس کا نام لینا شفا ہے"۔ اس کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا کس قدر افراط شفاء کا موجب ہوگا۔

علابن کامل نے امام ششم کے الفاظ علی بن ابراہیم کے ذریعے سے ہم تک یوں پہنچائے ہیں:

قَالَ لِی ابوعبداللّٰہ عَلَیکَ بِالدِّعَاءِ فَاِنّہ شِفَآءُ مِن کُلِّ دَاءٍ

"دعا کرتے رہا کرو کیونکہ وہ ہر درد کی دوا ہے"۔

ضروری وضاحت : (( مندرجہ بالا تحریر ایران کے معروف عالم دین اور شہرۂ آفاق خطیب مفسّر صحیفہ سجادیہ حجت الاسلام والمسلمین آقائی حسین انصاریان کے دعا کے موضوع پر کی جانے والی ایک تقریر کے اقتباسات کا ترجمہ ہے ))

 

ٹیگس