Jan ۱۴, ۲۰۱۷ ۲۲:۳۸ Asia/Tehran
  • انٹرنیٹ کے نشے کی عادت اور اس کا علاج ( تیسرا حصہ )

تحریر: ن تقوی

دوسرے قدم کے طور پر انسان انٹرنیٹ کے استعمال کو کنٹرول کرے یعنی اپنے کاموں میں نظم لیکر آئے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا فرد اپنے آپ کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ کتنی مدت کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرے اور اگر اس کا وقت انٹرنیٹ پر زیادہ صرف ہورہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس میں کمی لیکر آئے۔اس تمام پروگرام کو دقیق طریقے سے آگے بڑھائے، اور اپنی اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے سے گریز کرے۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ پر بیٹھنے سے پہلے معیّن وقت کا تعین کرے اور اگر یہ امکان ہو کہ وہ وقت کو فراموش کردے گا تو سسٹم کے ذریعے کمپوٹر پر بیٹھنے کے وقت کو تنظیم کرے۔ بہتر ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کو ایک انعام کے طور پر نظر میں رکھے، مثال کے طور پر کسی کلاس کو مکمل کرنے یا کسی پروجیکٹ کی  تکمیل پر ہی وہ انٹرنیٹ پر بیٹھے گا، ایک مدت تک انٹرنیٹ کے استعمال کو اسی طرح جاری رکھے یعنی انعام کے تعیّن کے طور پر، اس طرح اسے اپنے کام کی قدر معلوم ہوگی اور انٹرنیٹ سے مفید کام بھی لے سکے گا۔

 

 

وہ فرد کہ شدید طریقے سے انٹرنیٹ سے وابستہ ہے ، ایسے چاہیے کہ وہ اپنے انٹرنیٹ کے روزانہ استعمال میں تبدیلی لیکر آئے۔ اگر اس کی عادت ہے کہ وہ ظہر کے بعد کا وقت انٹرنیٹ پر گزارتا ہے تو ایسے چاہیے کہ اپنے وقت میں تبدیلی لائے اور صبح کے کسی وقت کا تعیّن کرے۔ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ بھی فرد میں انٹرنیٹ کی وابستگی میں کمی لاسکتا ہے اور وہ اپنی حقیقی زندگی میں واپس آسکتا ہے، اس کے ساتھ فراغت کے اوقات میں سینما گھروں، پارکوں یا تفریحی مقامات پر جانے سے بھی فرد میں معاشرتی زندگی کے حوالے اچھا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔  اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے نشے کے عادی فرد کو حتمی طور پر اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ گھنٹوں جو کمپوٹر کے پیچھے بیٹھا ہے اس سے اس کو کیا حاصل ہوا ہے اور کس چيز کو اس نے کھویا ہے، کون سے ان کے کام ناتمام رہے ہوئے ہیں اور اس کی کون سے سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں، ان تمام امور کو اسے ایک کاغذ پر لکھنا چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنے چاہیے کہ کمپوٹر کے استعمال کے بجائے وہ اپنے ناتمام کاموں کو فوری طور پر پورا کرے۔

 

 

انٹرنیٹ کے نشے کے عادی افراد، اپنی انٹرنیٹ کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے آخری اقدام کے طور پر اپنی من پسند سائٹوں اور لنکس کی جانچ پڑتال کریں، اور اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائیں کہ روزانہ کم سے کم ان سائٹوں کی طرف رجوع کریں اور مجازی دوستوں پر توجہ کے بجائے، ان افراد سے اپنے رابطوں کو بڑھائیں کہ جو ان کے اردگرد موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر پر کشش کاموں کی طرف اپنے رحجان کو بڑھائیں، تاکہ فرد اپنی قابل توجہ سائٹوں سے کسی حد تک دوری رہ سکے اور پرکشش کاموں کی طرف متوجہ ہوجائے۔ مثال کے طور پر دوستوں کو سیر وتفریح کی دعوت دے اور مختلف تربیتی اور تعلیمی کلاسوں میں ایڈمیشن لیکر، اپنے فارغ اوقات کو پر کرے۔  ان کاموں کو چند ہفتے انجام دینے کے بعد، انٹرنیٹ کا عادی فرد حتمی طور پر اپنے رویئے میں نفسیاتی اور سماجی لحاظ سے تبدیلی محسوس کرے گا اور اسے زندگی کے ديگر امورات میں لذت آنے لگے گی اور وہ حقیقی زندگی کی تمام خوبصورتیوں کا احساس کرنے لگے گا۔

بہرحال کسی بھی معاشرے میں نئی ٹیکنالوجی لانے کے ساتھ ساتھ، اس کے صحیح استعمال کے حوالے سے آگاہی کا عام کیا جانا نہایت ہی ضروری ہے تاکہ معاشرے میں بحران کی فضا پیدا نہ ہوسکے اور افراد اس ٹیکنالوجی کے نشے کے عادی نہ ہوجائیں، لہذا اس حوالے سے ملکوں کے حکام خاصطور پر ثقافتی امور سے وابستہ حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں واضح حکمت عملی وضع کریں۔

ایرانی کی یونیورسٹی کے معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر محمدی اصل کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے نشے کے عادی افراد، ایک سماجی بیماری کے عنوان سے، ممکن ہے کبھی بھی مکمل طور پر اس سے چھٹکارا حاصل نہ کرپائیں، لیکن فکر و تدبیر اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے، ایک قابل قدر حد تک اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ 

 

 

ٹیگس