کمیپ ڈیوڈ معاہدہ اور مسلمانوں میں اختلاف
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے اہم ترین مسئلے کی وجہ سے مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل دشمنی تمام مسلمانوں پر واضح اور روشن ہے اور اسکے حوالے سے مسلمان ممالک میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے مطالبات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی تسلط پسندی بھی اس بات کا باعث ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو مسئلہ فلسطین پر متحد کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین نے اسلامی تعاون تنظیم کی تشکیل مین بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین کی حمایت اور صیہونی دشمنی تمام مسلمان ممالک کا مشترکہ موقف ہے اور اسطرح اس موضوع کو امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکزثقل قراردیا جاسکتا ہے۔فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے لئے جدرجہد پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔اور یہ موضوع تمام مسلمانوں کے لئے اتحاد کی علاقت ہے تاہم اس وقت تک امت مسلمہ کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جبتک تمام مسلمان غاصب صیہونی حکومت کی شرپسند ماہیت سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہوجاتے کیونکہ صرف مشترکہ دشمن کی موجودگی اتحاد و وحدت کا باعث نہیں بن سکتی۔عالم اسلام کو تقریبا ستر سال پہلے اس دشمن کا سامنا کرنا پڑا لیکن ابھی تک یہ دشمنی وحدت کا سبب نہیں بن سکی کیونکہ مسلمانوں اور بالخصوص اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کو اس دشمن کی ماہیت اور حقیقت سے اچھی طرح آگاہی حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔یوم القدس اس حوالے سے بہترین موقع تھا کہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینی کاز اور مظلوم فلسطینی عوام کی آواز کو بے حس اور دھوکہ کا شکارحکمرانوں اور دنیا تک پہنچایا جائے تاکہ اس غاصب حکومت کے خلاف تمام مسلمانوں کے اتحاد و انسجام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے اور قدس کی آذادی کے مشترکہ اسلامی مسئلہ کو مل کرحل کیا جائے
کمیپ ڈیوڈ کا ابتدائی معاہدہ 1978 میں ہوا لیکن 1979 میں واشنگٹن میں اس پر حتمی دستخط ہوئے اس دوران عرب دنیا کی طرف سے یعنی استقامتی محاز کی طرف سے دوسرا اہم ردعمل سامنے آیا ۔نومبر 1978 میں عرب لیگ کا سربراہی اجلاس بغداد میں ہوا جس میں طے پایا کہ عرب لیگ کا سیکریٹریٹ قاہرہ سے تیونس منتقل کردیاجائے۔مصر کے خلاف پابندیاں بھی منظور کی گئیں۔یہ قاہرہ کے لئے اعتراض پر مبنی ایک اہم پیغام تھا۔ تاکہ وہ بدنام زمانہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر حتمی دستخط سے باز آجائے۔لیکن انورسادات نے پوری دنیا کے سامنے وائٹ ہاؤس میں کارٹر کی موجودگی میں بیگن کے ہمراہ اس معاہدے پر دستخط کردئے۔
عرب ممالک نے بھی ردعمل میں قاہرہ میں اپنے سفارتخانے بند کرنے کا اغلان کردیا۔اور مصر سے تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔اسرائیل نے مصر کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنے ایک بڑے مخالف کو جو اس کے لئے مشکلات پیداکرسکتا تھا اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد 1982 میں تین اھداف کی تکمیل کے لئے لبنان پر حملہ کردیا۔پہلا ہدف فلسطینی چھاپہ ماروں کو لبنان سے نکالنا،دوسرا شامی افواج کا اخراج اورتیسرا اسرائیل نواز مارونی حکومت کو برسراقتدار لانا۔
جب مصرنے اسرائیل کے ساتھ اس بدنام زمانہ معاہدے پر معاہدے کئے تو اس وقت تمام اسلامی ممالک نے اس اقدام کی مخالفت کی لیکن مصر اپنے اقدام پر مصر رہا جس سے فلسطین کے مسئلے پر مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز ہوا