Jan ۲۳, ۲۰۱۷ ۲۰:۳۱ Asia/Tehran
  • داعش کا قلع قمع ضروری

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے اپنے ملک کی سکیورٹی فورسز اور فوج کو دہشتگرد گروہ داعش کا قلع قمع کرنے کا حکم دیا ہے۔ محمد اشرف غنی نے اپنے پیغام میں واضح لفظوں میں کہا ہے کہ عوام کے اموال کو آگ لگانا اور ان کے درمیان رعب و وحشت پھیلانا ناقابل معافی گناہ ہے اور کسی بھی دین اور آئین میں اس کو جائز قرارنہیں دیا گیا ہے۔

افغانستان کے صدر نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو ماضی کی نسبت نہایت شدید طریقے سے ان حملوں کا جواب دینا چاہیے۔  افغانستان میں بد امنی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم تکفیری گروہوں کی موجودگی ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں کہ تکفیری گروہوں کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے ۔سعودی عرب جو افغانستان کے صوبہ جلال آباد ميں ایک یونيورسڻی بنا رہا ہے وه دراصل افغانستان ميں تکفیری وہابيت کو مضبوط بنارہا ہے اور یہ منحرف فرقہ مذہبی جهڑپوں اور فرقہ واریت کی فضا ميں ہی پروان چڑه سکتا ہے۔

وہابيت نے برسوں سے پاکستان ميں مدرسے بناکرعلاقے ميں مذہبی دہشتگردی اورفرقہ واریت کو خوب ہوا دی ہےاور اب افغانستان ميں پہنچ کر شيعہ او سنيوں کو آپس ميں لڑوانا چاہتی ہے ۔ دراصل وہابيت اورفرقہ پسندی پاکستان سے افغانستان ميں آئی ہے جس کی آل سعود مالی حمایت کرتی ہے۔تکفيری دہشتگرد گروه جو علاقے ميں وہابيوں کا آلہ کار شمار ہوتا ہے وه شيعہ مسلمانوں اوراهل سنت کو قتل کرکے ان کے درميان اختلافات اور ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جنگ کی آگ ميں دهکيل دینا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر سابق جہادی کمانڈر اورقومی اتحادی حکومت کی ایگزیکيڻو کونسل کے نائب سربراه محمد محقق کا کہنا ہے کہ تکفيری دہشتگرد گروه داعش کاهدف یہ ہے کہ وه افغانستان ميں مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات پهيلائے۔ انہوں نے کہا کہ افغاں عوام اس بات کی ہرگز اجازت نہيں دیں گے یہ تکفيری گروه اپنے مذموم اهداف تک پہنچ سکے۔

افغانستان کے حکام کا کہنا ہے کہ افغان عوام نے اپنے اتحاد و یکجہتی سے سب سے پہلے برطانيہ کی جارح اور سامراجی فوج اس کے بعد روس کی سرخ فوج کو اپنے ملک سے نکال باہر کيا ہے اور بلاشک افغان عوام اتحاد ویکجہتی سے اب تکفيری دہشتگرد گروه داعش کو بهی نکال باہر کریں گے کيونکہ یہ گروه بيرونی عناصر جيسے تاجيکوں٬ ازبک اور چچن کے دہشتگردوں سے تشکيل پایا  ہے۔

افغان قوم کا دہشتگردوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کے سامنے ہوشيار رہنا اس وجہ سے بهی ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں پاکستانی فوج کے آپریشن اس بات کا سبب بنے ہيں کہ دہشتگرد فرار کرکے افغانستان  چلےجائيں اور پيسہ اور اپنا کام جاری رکهنے کےلئے افغانستان ميں اپنی دہشتگردی جاری رکهيں۔ ان حقائق کے پيش نظر افغان قوم کے پاس دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی واحد راه برادری اور اتحاد قائم کرنا ہے تا کہ جارحين سے مقابلے کی طرح دہشتگردوں اور وہابيت کے آلہ کاروں سے بهی مقابلے ميں کاميابی حاصل کی جاسکے۔

 

ٹیگس