اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل اور عالمی چیلنج
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بان کی مون کا دور ختم ہوا اور جنوری 2017 سے پرتگال کے سابق صدر اور سابق وزیراعظم انٹونیو گٹریز (Antonio Guterres) نےاقوام متحدہ کے 10 ویں سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے منصب سنبھال لیا ہے۔ اس عہدے کی میعاد 5 سال ہوتی ہے۔ بان کی مون نے تقریباً 10 سال یہ عہدہ سنبھالا یعنی انھوں نے 2 بار 5,5 سالہ مدت کے لیے ذمے داریاں انجام دیں۔
67 سالہ انٹونیو گٹریز 10 سال (جون 2005 تا دسمبر 2015 ) اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR)کے سربراہ رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ان کا انتخاب 13 ممکنہ امیدواروں میں سے کیا گیا۔ اپنی نامزدگی کے فوری بعد عالمی نشریاتی اداروں سے گفتگو میں انتونیو گٹریز کا کہنا تھا،’’ویسے تو بہت سے معاملات عالمی سطح پر حل طلب ہیں لیکن میرا اولین چیلنج شام میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ اور وہاں کے عوام کی بحالی ہوگا۔
شام کے بحران کو چھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے اور اس میں لاکھوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں اور بارہ ملین سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں ۔
اسی ( 80) مختلف ممالک سے ہزاروں دہشتگرد شام میں داخل ہوئے اور انہیں ترکی ، عربی اور عبری ممالک کی بھرپور حمایت رہی ہے ، اس عرصے میں ان دہشتگردوں نے شام کے اندر قتل و غارت کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس میں سے ہراقدام انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
بان کی مون کی سربراہی کے دور میں اقوام متحدہ مغربی ممالک کے آلہ کار کے طور پر اپنے امور انجام دیتی رہی اور اس نے ان ممالک کی ڈکٹیشن پر مختلف فیصلے کئے۔ شام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کارکردگی نہ صرف اس عالمی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنی ہے بلکہ مختلف ممالک کی رائے عامہ کا بھی اس پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عرصے میں اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ ، دہشتگردوں کی باقاعدہ حلیف بنی رہی ۔
اقوام متحدہ کے نئے سکریٹری جنرل کے دور کے آغاز ہی میں النصرہ فرنٹ کے دہشتگردوں نے شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے " وادی بردی" کو سپلائی کئے جانے والے پانی کو بند کرنے کے لئے پانی کے چشمے عین الفیجہ پر قبضہ کیا اور وہاں سے آنے والے پانی کو مکمل طور پر بند کردیا ہے ۔ دمشق کے پانی کی ستر فیصد ضروریات اسی چشمے سے پوری کی جاتی ہے۔
بہرحال اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اقوام متحدہ نے پانی بند کرنے کے اس اقدام کو جنگی جرم قرار دیا ہے تو اب یو این او کے سکریٹری جنرل کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟ بہرحال نئے سکریٹری جنرل کو بان کی مون کی طرح مغربی ممالک کا آلہ کار نہیں بننا چاہیئے اور انہیں اس مسئلے کو جسے اقوام متحدہ جنگی جرم قرار دے چکی ہے فوری طور پر سلامتی کونسل میں لے جانا چاہیئے
اقوام متحدہ کے نئے سکریٹری جنرل کو چاہیئے کہ سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک سے گفتگو کرے بالخصوص نئے امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک دہشتگردوں کی حمایت ترک کردیں اور پانی بند کرنے کی ذمہ داری کے مقدمے کو انصاف کی عالمی عدالت میں بھیج دیں۔
اگر یو این او کے نئے سکریٹری جنرل سلامتی کونسل کے ذریعے اس مقدمے کو انصاف کی عدالت نہیں بھیج سکتے تو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انصاف کی عالمی عدالت کے قانون کے مطابق اپنا صوابدیدی اختیاراستمعال کرکے اسے انصاف کی عالمی عدالت میں بھیج سکتے ہیں۔ انصاف کی عالمی عدالت، آزادانہ اور منصفانہ فیصلہ کرتی ہے اور دہشتگردوں کے سرغنوں کے جرائم کو بھی عدالت میں زير سماعت لا سکتی ہے۔