خوشی و مسرت کیسے حاصل کی جائے؟ (حصہ دوم)
تحریر : حسین اختررضوی
اسلام نے انسان کو خوشی منانے سے منع نہیں کیا بلکہ دین اسلام نے انسان کو حرام طریقے سے خوشی منانے کے لئے منع کیا ہے اور یہ اس طبیب کی طرح ہے جو انسان کو اس کی صحت کے لئے بعض چیزوں سے منع کرتا ہے اگر ان چیزوں کی رعایت نہیں کی گئی تو مریض صحت مند نہیں ہوسکتا جس کے بارے میں خداوندعالم سورہ غافر کی پچہھترویں آیت میں فرماتا ہے: یہ سب اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم لوگ زمین پر باطل چیزوں اور طریقوں سے خوش ہوا کرتے تھے اور اکڑ کر چلا کرتے تھے۔
اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ جب انسان کی کوئی خواہش پوری ہوتی ہے تو وہ بہت ہی زيادہ خوش ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خوشی ہمیشہ باقی رہتی ہے یا رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے؟ یہ سچ ہے کہ جب ہم اس چیز کو حاصل کرلیتے ہیں جس کی ہمیں آرزو ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ملتی ہے مگر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی جس طرح تندرستی صرف اچھی خوراک سے ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے اور بھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے اُسی طرح دائمی خوشی بھی صرف خواہشوں کی تکمیل سے یا چیزیں جمع کرنے سے نہیں ملتی بلکہ اس کے دوام کے لئے کچھ اور بھی اہم قدم اُٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہرانسان میں دوسرے انسان کی بہ نسبت کچھ نہ کچھ فرق ضرور پایا جاتا ہے بلکہ مزاج کے اعتبار سے بھی بہت فرق ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ جس بات سے ہمیں خوشی ملتی ہے، اس سے دوسروں کو بھی خوشی ملے، اس کے علاوہ عمر کے ساتھ ساتھ ہماری خواہشیں اور شوق بھی بدل جاتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری خوشی ہر صورت میں قائم رہتی ہے، مثلاً ہمارے پاس جو کچھ بھی اللہ کی نعمت ہے اُسی پر قناعت کریں، دوسروں سے حسد نہ کریں، دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کریں اور تمام مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہاریں۔
ہم اپنی خوشی کو کس طرح ہمیشہ باقی رکھ سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں دین اسلام کے قوانین پرعمل پیرا ہونا پڑے گا تو سب سے پہلے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہوگا کیونکہ خود خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر تم ہماری نعمتوں پر شکر ادا کروگے تم میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کردوں گا لیکن جب انسان بینادی ضروریات پوری ہو جانے کے بعد بھی بہت زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے تو اس کی خوشی بڑھنے کے بجائے ماند پڑ جاتی ہے لہذا انسان کو ہمیشہ قناعت سے کام لینا چاہیئے تاکہ اس کی خوشی برقرار رہے۔
اسی طرح اگر انسان چاہتا ہے کہ ہمیشہ خوش و خرم رہے تو حسد جیسی بدترین بیماری سے بھی پرہیز کرے کیونکہ جس طرح ایک خطرناک بیماری انسان کی ہنستی و مسکراتی زندگی چھین لیتی ہے اسی طرح حسد انسان کی خوشی چھین لیتا ہے اور جب انسان حسد کی آگ میں جلتا ہے تو پھر اپنی خوشی و مسرت کو خود ہی آگ لگا دیتا ہے اور اسے مصیبت و پریشانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور حقیقی خوشی ہمیں تب ہی ملے گی جب ہم دوسروں سے محبت کریں گےاور دوسرے ہم سے الفت و محبت کریں گے۔
انسان کی زندگی میں کبھی خوشی ہوتی ہے تو کبھی غم بھی پایا جاتا ہے کبھی وہ راحت کی زندگی بسر کرتا ہے تو کبھی مشکلات اور مصائب و آلام کا شکار رہتا ہے لیکن اگر ہم مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہاریں بلکہ صبر و حوصلے سے کام لیں تو ہماری خوشی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے۔