Jan ۲۶, ۲۰۱۷ ۲۱:۵۲ Asia/Tehran
  • بچوں کی نشوونما میں تربیتی مراکز کا کردار ( دوسرا حصہ )

تحریر: نوید حیدر تقوی

ہم سب کی یہ آرزو ہے کہ ہمارے بچے صحتمند اور تعلیم یافتہ ہوں اور ہم ان کی مدد کریں تاکہ کم از کم وہ اپنی توانائيوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔

 وہ بچہ کہ جس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس میں اپنی عمر کی توانائی کی مناسبت سے نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔ تعلیمی مراکز اور اسکول وہ اہم ترین ادارے ہیں کہ جو بچوں کو معاشرے سے آشنا کروانے میں اہم ترین کردار رکھتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اسکول اور تعلیمی مراکز، نرسری سے لیکر پورے تعلیمی ادوار کے دوران، بچوں کے لئے مساوی مواقع کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں اور معاشرے سے آشنائی انہی تعلیمی مراکز کے ذریعے انجام پاتی ہے۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ معاشرے سے آشنائی، تقلید، تعلیم اور حوصلہ دینے کے ذریعے ہی وجود میں آتی ہے۔ تقلید، یعنی دوسروں کے رویوں، اقدار اور افکار و نظریات کی پیروی کرنا، بچپن اور نوجوانی کے دوران، فرد اساتذہ، ہم سن بچوں اور دوستوں کے رویوں، اقدار اور افکار و نظریات کی پیروی کرتا ہے۔ لہذا تعلیمی ماحول، خاص اہمیت کا حامل  ہے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اسکول تنہا فرد کی تربیت کا ذریعہ نہیں اور اس کی کارکردگی یقینی طور پر سماجی اداروں اور گھرانے و ذرائع ابلاغ کے اثرات کے ساتھ تکمیل ہو۔دوسری جانب معاشرے سے آشنا کروانے والے اداروں منجملہ اسکول کا اہم ترین ہدف و مقصد، معاشرے میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے طالب علموں کو آمادہ کرنا ہے۔

ضروری ہے کہ اسکول میں بچوں کو کورس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ، بچوں کو جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجیوں سے آشنا کیا جائے اور صحت عامہ کے مسائل کی تعلیم بھی دی جائے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی مشق بھی کروائی جائے تاکہ بچہ ذمہ دار شہری کے عنوان سے معاشرے میں قدم رکھے اور جس کام میں بھی مشغول ہو وہاں ذمہ داری اور توجہ کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھے۔بچپن اور نوجوانی کے دوران فکر و سوچ اور مقصد وہدف کی تقویت، معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور صحیح زندگی کے راستے کے انتخاب میں اثرات مرتب کرتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین بچوں کو پہنچنے والے نقصان کی اصلی وجہ، سیکھنے اور یاد کرنے کی صلاحیت کی کمزوری کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو صحت عامہ کے مسائل اور سماجی اقدار کی تعلیم ترجیحات بنیادوں پر دی جانی چاہیے اور انہیں سرفہرست موارد میں رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے بچے مستقبل میں جسمانی اور نفسیانی نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بہرحال اقدار اور افکار و نظریات کی منتقلی اور ثقافتی و سماجی رسم و رواج، معاشرے کی نئي نسل کی تربیت کے لئے نہایت ہی ضروری ہیں اور معاشرے سے آشنائی کے لئے اس سلسلے کو جاری و ساری رہنا چاہیے۔ معاشرے سے آشنائی کی بنیاد اس حقیقت پر استوار ہے کہ انسان، ایک شخص کی صورت میں متولد نہیں ہوا بلکہ سماجی تعلیم و تربیت کے ذریعے، ایک شخص میں تبدیل ہوا ہے۔        

 

 

ٹیگس